متفرق خبریں

بڑی موٹروے تین سال میں کیسے بنی؟

Reading Time: 5 minutes پاکستان کی سب سے بڑی موٹر وے ایم 5 کھول دی گئی مگر چپکے سے۔ حکومت نے افتتاح کرنا اور اشتہار دینا ضروری کیوں نہ سمجھا؟

ستمبر 13, 2019 5 min

بڑی موٹروے تین سال میں کیسے بنی؟

Reading Time: 5 minutes

تحریر: محمد اسد چوہدری M_AsadChaudhry@

ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر ہونے والی 392 کلومیٹر طویل ملتان تاسکھر موٹروے (M-5) کو عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے مگر ستم ظریفی دیکھیں کہ موجودہ حکومت نے محض سیاسی عناد میں اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس اہم اور قومی منصوبے کا کو ئی باضابطہ افتتاح کرنا بھی گوارا نہ کیا جبکہ وزارت مواصلات نے محض دو فقروں کی ایک پریس ریلیز میں جمعرات کی شام اعلان کیا کہ یہ موٹروے جمعہ کہ صبح ہلکی ٹریفک کے لیے کھولی جا رہی ہے۔


اس پریس ریلیز کے مطابق یہ موٹروے نہ صرف ملتان اور سکھر کے درمیان سفرکے دورانیہ کو کم کرے گی بلکہ اس سے پنجاب اور سندھ میں ترقی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی جبکہ صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب وفاقی وزیر مواصلات جناب مراد سعید نے لاس نوعیت کے منصوبوں کے باقاعدہ افتتاح سے راہ فرار اختیار کی ہے بلکہ ماضی میں بھی وہ فیصل آباد تا ملتان موٹروے(M-4) اور لاہورتا کوٹ عبدالحکیم (M-3) موٹروے کے افتتاح سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان دونوں موٹرویز کے افتتاح کی تقاریب کے دعوت ناموں پر ان کا نام درج تھا مگر اس کے باوجودانہوں نے ان تقاریب میں شرکت سے گریز کیا تھا۔


اگر بات کی جائے ملتان تاسکھر موٹروے کی تو یہ چھ لائن پر مشتمل 392 کلومیٹر طویل موٹروے ہے جو کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت ہمسائیہ ملک چین کے Eximبینک سے بطور قرض حاصل کی گئی رقم سے تعمیر کی گئی ہے جبکہ این ایچ اے کے ذرائع کے مطابق اس سٹرک کے لیے حاصل کیے جانے والے قرضہ جات کی واپسی ایک طویل مدتی طریقہ کار کے تحت اگلے 20 سے 25 سالوں میں کی جائے گی جو کہ ڈالر کے سابقہ مگر منجمد قیمت کے مطابق ہوگی جبکہ کل خرچ شدہ رقم پر شرح سود لگ بھگ 1.6 فیصدہوگا جو کہ عالمی سطح پر کم ترین شرح سود تصور کی جاتی ہے۔
اس منصوبے کا PC- I دسمبر 2015 میں منظور کیا گیا جس کی کل لاگت 298 ارب روپے تھی جبکہ اس منصوبے کا ٹھیکہ Engineering, Procurement, Construction (EPC) کی طرز پر M/s China State Construction Engineering Corporation کو دیا گیا تھا۔ EPC میں ڈیزائن، خریداری،تعمیر اور تمام تغیرات تعمیراتی کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ EPC طرز کے معاہدہ جات میں کام کے دائرہ کار، لاگت اورتکمیل کے وقت کاپیشگی تعین کیا جاتا ہے جس کے بعد صرف مختلف احداف حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے معاہدوں میں ماسوائے فندز کی فراہمی کے تمام دیگر چیزیں تعمیراتی کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ EPC طرز کے منصوبے بروقت اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ پاکستان میں اس طرز کا دوسر ا بڑا منصوبہ تھاکوٹ تا حولیاں موٹروے ہے۔

ملتان تا سکھرموٹروے اپنے معاہدہ کے عین مطابق مگر ماضی کے مقابلے بہت تیزی سے یعنی صرف تین سال کی قلیل مدت میں مکمل ہوئی ہے جبکہ اس کے لیے فنڈز چین کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔ مگر یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اس منصوبے کی تعمیر کے دوران چین کی جانب سے پاکستانی اداروں کو کوئی براہ راست رقم مہیا نہیں کی گئی بلکہ یہاں این ایچ اے کی جانب سے تعمیر کے پہلے سے طے شدہ مراحل اور احداف حاصل کرنے پر صرف تعمیراتی کمپنی کے بلز کی تصدیق کی جاتی تھی جس کے بعد ان بلز کو چین کے بینک کو بھیج دیا جاتا تھا۔
چونکہ بینک اور کمپنی دونوں چین کی سرکاری ادارے تھے اس لیے وہاں پر بھی صرف کتابی جمع خرچ یعنی Book Adjustment کی جاتی تھی جس کے بعد تعمیراتی کمپنی کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے رقوم منتقل کی جاتی تھیں۔
اس موٹروے کے معاہدہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دیگر منصوبوں کے برعکس ملتان تا سکھر موٹروے کا Defect Liability Periodایک سال کے بجائے تین سال ہے۔ اس منصوبے کو جدید ترین عالمی معیارات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے جس میں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوں گی۔ضروری قوائد مکمل کرنے کے بعد اس منصوبے کاکنٹرول این ایچ اے کے سپرد کیا جائے گا جو بعدازاں اس کا انتظام خود یا کسی اور کمپنی کے ذریعہ چلائے گا۔
جب این ایچ اے کے ایک سینئر آفسر سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس منصوبہ کو مکمل کرنے کے لیے حاصل کیے جانے والے قرض کے واپسی کی تفصیلات تو وزارت خزانہ کے پاس ہیں مگر اس میں ایک بڑا حصہ موٹروے پر ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم، سروس ایریاز کی نیلامی اور اس کے رائٹ آف وے میں بچھائی جانے والی لائنوں کے کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا ہوگا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ویسے تو اس موٹروے کو بہت فائدہ مند تصور کیا جارہا ہے اور امید ہے کہ اس کی قیمت بمعہ سود کی رقم کے مقررہ وقت میں حاصل کر لی جائے گی مگر ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو تو ایسے میں باقی ماندہ رقوم حکومت پاکستان کو ادا کرنی ہوگی جو اس منصوبے کی ضامن ہے۔

یہ منصوبہ پشاور تا کراچی موٹروے کا حصہ ہے جہاں پشاور سے اسلام آباد(M-1)، اسلام آباد تا لاہور(M-2)، لاہورتا کوٹ عبدالحکیم(M-3)، فیصل آبادتا ملتان(M-4) جبکہ دوسری طرف کراچی تا حیدرآباد موٹروے (M-9) پہلے سے تعمیر ہوچکی تھیں۔ اب ملتان تا سکھر موٹروے کے مکمل ہو جانے کے بعد پشاور سے کراچی براستہ موٹروے جانے کے راستے میں صرف سکھر سے حیدر آباد موٹروے (M-6)کی تعمیر باقی ہے۔

اس منصوبے کا آغاز دیگر کئی منصوبوں کی طرح پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے کیا گیا تھا جو ان دنوں بدعنوانی کے مقدموں میں ہونے والی سزا کے طور پر قید کاٹ رہے ہیں مگر موجودہ حکومت کو چائیے کے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئی ان منصوبوں کو جماعتی وابستگیوں سے بلاتر ہو کر دیکھے اور دیگر کئی منصوبے جو عدم توجہی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں ان کو مکمل کریں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے