مخصوص نشستوں کا فیصلہ، ووٹرز سے ناانصافی نہیں؟
جیتنے والے آزاد تھے یا پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا یا نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی تھی یا نہیں۔ یہ سب باتیں غیر اہم ہیں۔
اصل اور تسلیم شدہ بات یہ ہے کہ وہ الیکشن جیت کر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی تھے اور سیدھی سی بات ہے کہ ان منتخب ارکان کو اسمبلی میں موجود دیگر منتخب ارکان کی طرح اسی تناسب سے مخصوص نشستوں پر ارکان کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے جس تناسب سے دیگر ارکان کو یہ حق حاصل ہے۔
انہیں اس حق سے محروم کرنا ناانصافی ہے، صرف ان ارکان سے ہی نہیں بلکہ انہیں جنرل الیکشن میں منتخب کرنے والے ووٹرز کے ساتھ بھی یہ ایک ناانصافی ہے۔ یہ قانون کی بات نہیں ہے، بلکہ اس اصول کی بات ہے جس کی بنیاد پر مخصوص نشستوں پر انتخاب کا پورا قانون کھڑا ہے۔
اب اس اصول کی بات پر یار لوگوں نے اعتراض کیے ہیں۔
زیادہ تر اعتراض ایک ہی نوعیت کے ہیں کہ ریاست لکھے ہوئے قوانین کے مطابق چلتی ہے اور یہ کہ عدالت کا کام صرف لکھے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے۔ انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں۔
کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ الیکشن جیت کر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کی ایک کثیر تعداد کو آئین میں درج ratio کے مطابق مخصوص نشستوں پر اراکین منتخب کرنے کے حق سے محروم کرنا اور ان کے حصے کی مخصوص نشستوں کو بھی دیگر اراکین کی جھولی میں ڈال دینا انصاف کے منافی نہیں ہے۔
کچھ دوستوں نے میرے وکیل ہو کر "الفاظ” کی بجائے "انصاف” کی بات کرنے پر حیرت کا اور کچھ نے تو باقاعدہ غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔
سچی بات ہے کہ لمبی چوڑی تحریریں لکھنے کا نہ وقت ہوتا ہے اور نہ ہی دل، ایک ایک تبصرے کا جواب دینا بھی بعض اوقات مشکل لگتا ہیں۔
لہذا یہیں پر اعتراضات کو نمٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ میں نے عدالت کی نیت پر کسی قسم کا شک نہیں کیا، نہ ہی بینچ میں موجود کسی جج پر الزام تراشی کی ہے، کیونکہ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ کچھ ججز واقعی literalism کے قائل ہوتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ یہ ہمیشہ انصاف کا باعث بنے، اس لیے مجھے literalism کی rigidity سے اختلاف ہے، خاص طور پر اس کیس میں۔
ایسا نہیں ہے کہ عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ عدالت کا کام قوانین کی تشریح کرنا ہوتا ہے۔
قوانین کی تشریح کرنے کے اصول موجود ہیں جنہیں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ قوانین کی تشریح کے دو اصول literal rule اور golden rule اہم ہیں۔ purposive interpretation بھی golden rule کا ہی حصہ یے۔ عموما” golden rule کا اطلاق اس صورت میں کیا جاتا ہے جب قانون کی لفظی تشریح ناانصافی اور ابہام کا موجب بن سکتی ہو، ایسی صورت میں مقننہ کی نیت کی بنیاد پر ایسی تشریح کی جاتی جو قرین انصاف ہو۔
ایک عدالت کے لیے اہم بات یہ جانچنا ہوتی ہے کہ کہاں گولڈن رول کا استعمال کیا جائے اور پھر یہ احتیاط بھی ضروری ہوتی ہے کہ تشریح مقننہ کی نیت کے برعکس نہ ہو۔
پاکستان کے نظام انصاف میں بھی قوانین کی تشریح انہی اصولوں پر رائج ہے اور کئی نہایت اچھے سمجھے جانے والے فیصلوں میں golden rule اور purposive interpretation کے اصول بروئے کار لائے گئے ہیں۔ جو دوست اس موضوع پر مزید بات چیت کے خواہاں ہوں ان سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ ایک بار ان اصولوں کا مطالعہ ضرور کر لیں۔ انہیں انٹرنیٹ پر با آسانی پڑھا جاسکتا ہے۔ ہو سکے تو "justice over rigidity of literalism” کے متعلق بھی کچھ پڑھ لیں۔
مشہور و معروف الٰہی کاٹن مل کیس اور عاصمہ جیلانی کیس پورے پڑھنے تو شاید آپ کے لیے مشکل ہوں، ہو سکے تو ہیڈ نوٹس ہی پڑھ لیں۔ اقبال ظفر جھگڑا کیس چلیں رہنے ہی دیں، اتنا ہی کافی ہے۔