پانچ جولائی 77 سے 5 جولائی 2025 تک، سبق جو نہ سیکھے
پانچ جولائی 1977 کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا، جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو معزول کر کے مارشل لاء نافذ کیا۔ اس اقدام کو "نظام کی اصلاح” اور "ملکی استحکام” کے نام پر جائز قرار دیا گیا، مگر درحقیقت اس نے جمہوری نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ 1973 کے آئین کو معطل کیا گیا، سیاسی قیادت کو قید و بند میں ڈالا گیا اور ایک آمرانہ دور کا آغاز ہوا جس نے نہ صرف سیاست بلکہ معاشرت، معیشت، اور تہذیب کو بھی گہرا نقصان پہنچایا۔ آج جب ہم 5 جولائی 2025 پر کھڑے ہیں تو یہ سوال شدت سے ابھرتا ہے کہ کیا ہم نے گزشتہ 48 سالوں میں کچھ سیکھا یا وہی پرانی غلطیاں دہرا رہے ہیں؟
1977 کا منظرنامہ ایک جمہوری سیاسی حکومت، عوامی جوش و خروش، اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے عبارت تھا، مگر چند مہینوں کی انتخابی کشمکش، اپوزیشن کے احتجاج، اور اسٹیبلشمنٹ کی بے صبری نے پورا نظام پٹری سے اتار دیا۔ ضیاء الحق کی حکومت نے افغان جہاد کے نام پر عالمی طاقتوں سے ڈالرز لیے، مگر اس کے بدلے پاکستان کو کلاشنکوف، ہیروئن، شدت پسندی، مذہبی انتہا پسندی اور معاشرتی انتشار ملا۔ تعلیمی ادارے نظریاتی اکھاڑوں میں تبدیل ہو گئے، صحافت پر قدغنیں لگ گئیں اور سیاسی شعور کو دبایا گیا۔ ریاستی ادارے ذاتی وفاداریوں پر چلنے لگے اور آئینی بالادستی خواب بن گئی۔
آج کا منظرنامہ بظاہر جمہوری ہے مگر اندر سے کھوکھلا۔ 2025 میں ہمارے پاس ایک منتخب حکومت، ایک فعال پارلیمان، اور خودمختار عدلیہ موجود ہیں، مگر یہ تمام ادارے عوامی اعتماد اور باہمی ہم آہنگی سے محروم نظر آتے ہیں۔ سیاسی قیادت بداعتمادی کا شکار ہے، اپوزیشن کو غدار اور حکومت کو نااہل تصور کیا جاتا ہے، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک "خاموش سپروائزر” سے بڑھ کر واضح اور فعال ہے۔ ادارہ جاتی توازن آج بھی قائم نہیں ہو سکا اور عوام اب بھی اپنے ووٹ کی طاقت پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔
سیاسی طور پر ہم نے بے پناہ نقصان اٹھایا ہے۔ بار بار جمہوری عمل کی مداخلت سے سیاستدانوں کو کرپٹ اور ناکام ثابت کیا گیا، جب کہ غیر منتخب قوتوں کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔ آج ہمارے نوجوان سیاست کو گالی سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو مغربی سازش۔ سیاسی جماعتوں کو تقسیم در تقسیم کر کے ان کی نظریاتی بنیادیں کمزور کر دی گئیں اور پارلیمان صرف قانون سازی کے بجائے پوائنٹ اسکورنگ کا مرکز بن چکا ہے۔ سویلین بالادستی کا خواب آج بھی ادھورا ہے۔
معاشی اعتبار سے 1977 میں پاکستان کی معیشت نسبتاً مستحکم تھی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد سے زائد تھی، مہنگائی کنٹرول میں تھی اور قرضوں کا حجم 6 ارب ڈالر سے کم تھا۔ 2025 میں ہم 130 ارب ڈالر سے زائد قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری برآمدات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، اور روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ نے معیشت کو بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور بیروزگاری کا گراف روز بروز بلند ہو رہا ہے۔ عوام کے لیے بنیادی سہولیات تک رسائی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
سماجی و ثقافتی میدان میں بھی ہمیں شدید نقصان پہنچا۔ 1977 کے بعد جس مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا، اس نے آج پورے معاشرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ فرقہ واریت، عدم برداشت، اور تشدد کو نظریاتی جواز فراہم کیا گیا۔ آج بھی سوشل میڈیا پر سیاسی و مذہبی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنا دیا جاتا ہے۔ تعلیم کو نظریاتی یرغمال بنا کر نوجوانوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کیا گیا۔ عورت، اقلیت اور مزدور آج بھی وہی سوال دہرا رہے ہیں، کیا یہ ملک ان کا ہے؟
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تشخص مسلسل کمزور ہوا ہے۔ ہم کبھی FATF کی گرے لسٹ میں رہے، کبھی GSP+ پر دباؤ کا شکار ہوئے، تو کبھی IMF کی سخت شرائط تلے قومی خودمختاری گروی رکھی۔ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا اور ویتنام جیسے ممالک ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ ہماری سفارتکاری دفاعی، غیر مربوط اور وقتی نوعیت کی رہی ہے، جس کی وجہ سے ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوئے۔
اگر ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے مجرم ہیں۔ ہمیں اب قومی سطح پر ایک اجتماعی مکالمہ درکار ہے، جس میں تمام ادارے، سیاسی جماعتیں، میڈیا، سول سوسائٹی اور نوجوان نسل شامل ہو کر ایک نیا عمرانی معاہدہ کریں۔ عدلیہ کو آزاد اور مؤثر، پارلیمان کو بااختیار اور عوام کو باخبر بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی تعلیمی اور سماجی پالیسیاں ازسرنو ترتیب دینی ہوں گی، تاکہ قوم سوچنے، سوال کرنے اور خود فیصلے کرنے کے قابل ہو۔
ہمیں اب وہ پاکستان بنانا ہے جہاں ووٹ عزت دار ہو، سیاست شرافت پر مبنی ہو، اور ادارے آئین کے تابع ہوں۔ اگر ہم نے اب بھی خود کو نہ بدلا، تو آنے والے عشروں میں ہم صرف ’’5 جولائی‘‘ کی برسی مناتے رہیں گے، مگر بہت کچھ کھو چکے ہوں گے، شاید اپنا وجود بھی۔