سپریم کورٹ: پرویز رشید پر نااہلی کی تلوار
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) میں منیجنگ ڈائریکٹر وچیئرمین کے تقرر کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے کہاہے کہ اگر عطاء الحق قاسمی کا تقرر غیرقانونی ثابت ہوا تو آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کامعاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے پرویزرشید سے کہاکہ اسی لیے آپ کو کہاتھاکہ اپنا وکیل مقرر کرلیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمرعطابندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی عدالتی بنچ کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے بتایاکہ وفاقی کابینہ نے دوہزار پندرہ میں چار وفاقی اداروں میں سربراہ لگانے کیلئے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد میں ترمیم منظور کی، قاسمی صاحب کی عمر 72سال ہے اور اس کی کابینہ سے منظوری لی گئی۔ عطاء الحق قاسمی کا نام سابق وزیر اطلاعات نے تجویز کیاتھا۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ کیا وفاقی وزیرکا جو دل چاہے کرے گا، کیا قانون اور شفافیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا اس غیرقانونی تقرر پر آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی نہیں ہونا چاہیے؟۔ایمانداری کنڈکٹ سے ثابت ہوتی ہے، اگر ہم اس کوغیرقانونی قراردیں تو کیااس پر بددیانتی کا اطلاق نہیں ہوگا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ تقرر میں بے ایمانی ثابت ہونے پر اطلاق ہوسکتاہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ کیا عوام نے اس لیے منتحب نہیں کیاتھاکہ ریاست کو اس انداز سے چلایاجائے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہم نے گزشتہ سماعت پر قاسمی صاحب کی جانب سے استعمال کیے فنڈز کے آڈٹ کا کہاتھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر معاملہ نیب کو نہیں بھجوانا تو ہم انکوائری کرالیتے ہیں۔اگر تقرر غلط ثابت ہواتو اسی تناسب سے تقررکرنے والے پیسے واپس کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پی ٹی وی کمرشل ادارہ ہے اور اس کا ٹرن اوور چھ ارب روپے ہے۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ پہلی سمری میں قاسمی صاحب کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرنے کیلئے کہاگیاتھا۔ یہاں یہ کہنے میں شرمندگی محسوس کررہاہوں کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں قاسمی صاحب کو چیئرمین لگانے کا فیصلہ کسی باقاعدگی الیکشن کے ذریعے نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیوں شرمندہ ہورہے ہیں، جنہوں نے لگایا ان کو شرمندہ ہونا چاہیے۔اس موقع پر عدالت میں کھڑے ہوکر پرویزرشید نے کہاکہ میری یادداشت کے مطابق قاسمی صاحب کو چیئرمین لگانے کیلئے بورڈ کا اجلاس ہواتھا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر اجلاس ہواہے تو پھر اس کے منٹس بھی ہوں گے، دیگر ارکان کو اجلاس کا نوٹس بھی گیا ہوگا، اس کے ایجنڈے کا بھی بتایا گیاہوگا، وہ ریکارڈ لے کر آئیں گے تو معلوم ہوگا۔کیا یہ ڈکٹیشن کے زمرے میں نہیں آئے گا کہ کہ اجلاس سے پہلے ہی چیئرمین لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہو۔پہلے بورڈ اجلاس کے معاملے کو دیکھیں گے پھر آگے بڑھیں گے، بورڈ اجلاس میں کورم بھی ہوگا۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق عدالت کو سیکرٹری اطلاعات نے بتایاکہ اجلاس کے منٹس عدالت کو دیے گئے تھے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ وہ پہلے اجلاس کے منٹس تھے جب وہ بورڈ میں ڈائریکٹر کے طور پر نوٹیفائی ہوگئے تو اس کے بعد چیئرمین کیلئے الیکشن ہونا تھے۔چیف جسٹس نے کہاکہ بطور بورڈ رکن جہاں فی اجلاس پانچ ہزار لینے تھے، وہ پچاس لاکھ کیسے لینے لگے؟۔ چیئرمین کے علاوہ ایم ڈی کیسے بن گئے؟۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب،آپ کا اعتراف ریکارڈ کرلیتے ہیں کہ ایسا کوئی اجلاس نہیں ہواتھا۔ رانا وقار نے جواب دیاکہ میں نے ایسانہیں کہا، چھ جنوری کے اجلاس کے منٹس موجود ہیں، طریقہ کار یہ ہے کہ چیئرمین وفاقی حکومت لگاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون میں طریقہ موجود ہے کہ اداروں کا سربراہ کیسے لگاناہے، یہ تقرر بے قاعدگی ہے۔پہلے نوٹی فیکیشن جاری کردیا اور اس کے بعد بورڈ کا اجلاس کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہاکہ چیئرمین اسی نے بننا تھا جس کو وفاقی حکومت نے نامزد کیا، باقی بورڈ اجلاس میں الیکشن ہونا تو رسمی کارروائی ہوتی ہے۔جسٹس عمرعطا نے کہاکہ وفاقی حکومت نے یہ کام انتہائی عجلت میں کیا، اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ جس دن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سمری وزیراعظم ہاؤس کو واپس بھیجی اسی دن دیکھے بغیر نوٹی فیکیشن جاری کرکے چیئرمین کیلئے قواعد وضوبط طے کردیے اور تنخواہ بھی لکھ دی۔