دوستم قاتلانہ حملے میں بچ نکلے
Reading Time: < 1 minuteافغانستان کے نائب صدر اور سابق جنگجو ازبک کمانڈر عبدالرشید دوستم کو طالبان نے نشانہ بنایا ہے مگر وہ ایک بار پھر قاتلانہ حملے میں بچ گئے ہیں ۔
افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ عبدالرشید دوستم کے قافلے پر قاتلانہ حملہ صوبہ بلخ میں ہوا جس میں ان کا ایک محافظ مارا گیا ہے ۔
دوسری جانب طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
عبدالرشید دوستم پر آٹھ ماہ میں ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے ۔ پہلا حملہ ان پر ترکی سے وطن واپسی پر کابل ائرپورٹ کے احاطے میں کیا گیا تھا ۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عبدالرشید دوستم طویل نے ترکی میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی تھی ۔ انہوں نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تھا ۔ دوستم کو طالبان ایک وحشی ازبک جنگجو کمانڈر کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہیں ۔
عبدالرشید دوستم پر پہلے قاتلانہ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی جس میں 14 افراد مارے گئے تھے۔
عبدالرشید دوستم نے نائب صدر کے طور پر سنہ 2014 میں افغانستان کی اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
عبدالرشید دوستم افغانستان کے صدارتی انتخاب میں افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی الیکشن ٹیم کا حصہ ہیں جو 28 ستمبر کو شیڈول صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں موجود امیدواروں میں شامل ہیں۔