فصیح الرحمان چلا گیا، اچھا کیا
Reading Time: 5 minutesفصیح الرحمن نے اچھا کیا جو اس جواں عمری میں دنیا سے چلے گئے۔ جانتا ہوں کسی بھی دوست کی جوان موت پر یہ جملہ لکھنا سنگدلی ہے لیکن میں بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ فصیح الرحمن نے اچھا کیا۔
میری فصیح الرحمن سے بہت زیادہ ملاقات نہیں تھی۔ البتہ دوستوں سے ان کا ذکر بہت سنا تھا۔ ایک ٹاک شو میں ان سے ملاقات ہوئی، فون نمبرز کا تبادلہ ہوا، اور پھر چند دنوں کے بعد فصیح کا فون آ گیا۔ گھنٹوں باتیں ہوتی رہیں۔ اپنی صحافت کے عروج کی باتیں۔ سیاستدانوں کی باتیں۔ صحافت پر پابندیوں کی باتیں۔ آزادی اظہار پر قدغنوں کی باتیں۔
فصیح اپنی بیماری کا بہت ذکر کرتے تھے۔ کس طرح چار سال انہوں نے شدید دشواری میں گذارے۔ لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ حکیموں، ویدوں، پیروں اور ڈاکٹروں کے چکر لگتے رہے۔ فصیح کو کوئی بہت سنگین بیماری نہیں تھی۔ انہیں بس شوگر کا عارضہ تھا۔ مگر حساس لوگوں پر واقعات مختلف طریقوں سے اثر کرتے ہیں۔ فصیح نے شوگر کے مرض کو قبول نہیں کیا۔ بہت مشکل سے وہ اس ڈپریشن سے چند ماہ پہلے نکلے تھے۔ انسولین لگانا شروع کی تھی۔ اب وہ زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے تھے۔ دوستوں سے رابطے بحال کرنا چاہتے تھے۔ اپنے "ذرائع” سے دوبارہ ملنا چاہتے تھے۔ اب زندگی کے بارے میں ان کے بہت خوش گوار منصوبے تھے۔ وہ اب بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اٹھارہ فروری کی رات طبیعت خراب ہوئی اور لمحوں میں پاکستانی صحافت کا ایک ستون ختم ہو گیا۔ سچ بولنے والا ایک اور سپاہی گمنامی کی موت مر گیا۔ حق بات کرنے والا ایک اور ساتھی چل بسا۔ 47 برس کی عمر میں صحافت کا ایک باب ختم ہو گیا۔ آواز حق بلند کرنے والا ایک اور صحافی دفن ہو گیا۔
فصیح کے انتقال کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ بہت سے دوستوں کے اشک شوئی کے لیے فون آئے۔ بہت سے احباب کو میں نے فون کیا۔ ہر شخص اس بات متفق تھا کہ وہ بے باک صحافی تھا۔ سچ کہنے سے نہیں ڈرتا تھا۔ کرپشن کا کوئی داغ اس کے دامن پر نہیں تھا۔ ذاتی فائدے کے لیے اس نے کسی سے مراسم نہیں بنائے تھے۔ وہ بے لوث دوستوں کے کام کرتا تھا۔ جن سے اختلاف تھا ان سے بھی معذرت کرتا تھا۔ گپ شپ کا شوقین تھا۔ لاہوری مزاح اس کی سرشت میں تھا۔ وہ بہت ہنس مکھ تھا مگر سب کو اداس کر گیا تھا۔
ابصار عالم سے بات ہوئی تو وہ بھی رنجیدہ تھے، قیوم صدیقی کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ احمد ولید کا لہجہ بہت غمگین تھا۔ صابر شاہ کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ سب اس کے گن گا رہے تھے۔ سب اس کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔
فصیح الرحمن کا بچپن دبئی میں گذرا۔ انہوں نے بہت سے اعلی صحافتی عہدوں پر کام کیا۔ اپنی رپورٹنگ سے بہت نام پیدا کیا۔ دی نیشن میں بھی وہ کام کرتے رہے۔ دنیا ٹی وی میں بھی وہ بیورو چیف رہے۔ ایکسپریس میں بھی کئی کارنامے سر انجام دیے۔ جیو ٹی وی کی لانچنگ ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ خلیج ٹائم کے لیے بھی کام کیا۔ بین القوامی روزناموں سے بھی منسلک رہے۔ جہاں جہاں مواقع ملے قلم کی تلوار چلاتے رہے۔ حق کا علم بلند کرتے رہے۔
فصیح کے مراسم بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔ سیاستدان ان کے ذاتی دوست تھے۔ بیورکریٹس ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہر سیاسی جماعت میں ان کے کچھ "ذرائع” موجود تھے۔ وہ سب سے بنا کر رکھتے اور سب سے بنا کسی تعصب کے ملتے۔ جب فصیح موڈ میں ہوتے تو بتاتے کہ کس کس سیاسی جماعت کی طرف سے ان کو کیا پیشکش ہوئی۔ کس کس نے ان کو خبر روکنے کی کیا کیا قیمت ادا کرنا چاہی۔ کون کون سا لیڈر ان سے مشورے کرتا تھا۔ کس کس سیاسی قائد سے ان کی ملاقات صرف ایک فون کی بات تھی۔ کون کون سا ادارہ ان سے کیا کیا خدمات لینا چاہتا تھا۔ کس کس دفتر میں وہ بنا اجازت جا سکتے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود فصیح نے ان تعلقات کو کامیابی کی سیڑھی نہیں بنایا۔ ان کا اصول صحافت خبر اور اس کی سچائی تک محدود رہا اس سے آگے کا سوچنے کے وہ روادار نہیں تھے۔ وقتی فائدوں کے تعاقب میں رہنا ان منشور نہِیں تھا۔
فصیح کو اپنی خبروں پر بہت فخر تھا۔ وہ بڑے مزے لے لے کر بتاتے تھے کہ کس خبر تک ان کی سب سے پہلے رسائی ہوئی ۔ کون سے خبر انہوں نے بریک کی۔ کس خبر کی تصدیق کے لیئے انہیں کن جان جوکھوں سے گزرنا پڑا۔ کس کی خبر کو رکوانے کے لیئے ان پر الزام لگے۔ کس خبر کو کرنے کی پاداش میں انہیں کس کس چینل سے نکال باہر کیا گیا۔ کس خبر کا پلاںٹ کرنے کا کہہ کر انہیں کیا کیا پیشکش کی گئی۔ فصیح گھنٹوں سے یہ باتیں کرتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی اس بات کا اقرار نہیں کیا تھا کہ وہ بے روزگار ہیں اور زندگی کے دن کس دشواری سے بسر کر رہے ہیں۔ مجھے خود ان کے انتقال کے بعد ان کی بے روزگاری کا علم ہوا۔ اب ان کی بیماری اور ڈپرپیشن سمجھ آتا ہے۔ اب شوگر جیسے عام مرض سے ان کا خوف سمجھ آتا ہے۔ اب لوگوں سے بے تعلقی کی وجہ سمجھ آتی ہے۔
چینل مالکان جو برتاؤ صحافیوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر کیا لکھا جا سکتا ہے۔ کتنے چینل ہیں جہاں مہینوں تنخواہ نہیں آتی۔ کتنے روزنامے ہیں جو بند ہو گئے ہیں۔ کتنے ہزار صحافی ہیں جو بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کتنے نیوز کیمرہ مین ہیں جو تنخواہ کا تقاضا کرنے پر چینلوں سے دھتکار کے نکال دیے گئے ہیں۔ کتنے ذہین لوگ ہیں جو دو وقت کی روٹی کی خاطر ہر روز ہزیمتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ کسی اور معاشرے میں یہ سچ بولنے والے لوگ ہوتے تو ہیرو کہلاتے اور یہاں ہر سچ بولنے بے روزگار صحافی کے لفافے کے الزامات ہیں۔ غداری کے فتوے ہیں۔ ملک دشمن ہونے کے طعنے ہیں۔
اس دور میں دو طرح کے صحافی ہیں۔ ایک وہ جو ہر لمحہ آقائے ولی نعمت کی دلبستگی کے لیئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ جو خبر تلاش نہیں کرتے تخلیق کرتے ہیں۔ جن کی صحافت وٹس ایپ پر آنے والے احکامات تک محدود ہے۔ جنکی تنخواہ لاکھوں میں ہے وہ وہ ارب پتی بن چکے ہیں۔ صحافیوں کی دوسری قبیل وہ لوگ ہیں جو سچ بولنا چاہتے ہیں ۔ جو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا چاہتے ہیں۔ جو ظلم اور استبداد کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔ جو صحافتی اصولوں پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے صحافی زیادہ تر بے روزگار ہیں۔ انکے بات کہنے کے ذرائع ختم کیے جا رہے ہیں۔ ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کے ٹوئٹر مانیٹر کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بیوی بچے خوف میں پل رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں کسمپرسی میں بسر ہو رہی ہیں۔ ان کی زبانوں پر تالے لگائے جا رہے ہیں۔ چند زرخرید اینکر اور چند لعین تجزیہ کار ہی صحافت بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے ماحول میں صحافی زندہ نہیں رہ سکتے۔
فصیح الرحمن نے اچھا کیا جو اس ماحول سے پردہ پوشی کر لی۔ جو ظلم کی اس رات میں دم توڑ جائے وہ سکون میں ہیں کیونکہ جو زندہ ہیں اصل میں وہ زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ ہر روز اس ملک کی صحافت کے ساتھ دفن ہو رہے ہیں۔
فصیح الرحمن نے اچھا کیا۔ جو اس جواں عمری میں دنیا سے چلے گئے۔ میں جانتا ہوں کسی بھی دوست کی جوان موت پر یہ جملہ لکھنا سنگدلی ہے لیکن میں بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ فصیح الرحمن نے اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا۔