حکومت اور آئی ایس آئی آمنے سامنے
Reading Time: 3 minutesمسلم لیگ ن کی حکومت کے چار اہم وزراء نے پریس کانفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کی تحقیقاتی ٹیم پر کئی سوال اٹھا دیے، سعد رفیق نے موجودہ صورتحال میں سول فوجی قیادت کے تعلقات میں قائم توازن سے متعلق صورتحال میں پیچیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہاکہ شریف خاندان کا احتساب کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اس میں جب دو حساس اداروں کو شامل کیا گیا تو ہمارے قانونی مشیروں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ جے آئی ٹی میں صرف سول اداروں کو ہی شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا ایک پس منظر ہے اور بڑی مشکل سے ایک طویل عرصے بعد اس میں ایک توازن قائم کیا گیا اور اب اس طرح کی صورتحال ان تعلقات میں پیچیدگی پیدا کرسکتی ہے۔سعد رفیق نے کہاکہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا طریقہ کار اور اس کے اراکین کی نامزدگی روز اول سے ہی متنازع رہی ہے۔ اس جے آئی ٹی کی تشکیل پر بھی سوال اٹھایا جاسکتاتھاکہ کیا اس طرح عدالت تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے سکتی ہے مگر وزیراعظم کی خواہش تھی کہ سوال نہ کیے جائیں۔ ان کاکہنا تھاکہ ہمیں بہت بھاری دل اورمجبوری کے ساتھ یہ باتیں کرنا پڑرہی ہیں، ہم ایک بڑی سیاسی جماعت ہیں اور کسی بھی جماعت کی ساکھ اس کا اثاثہ ہوتی ہے، بدقسمتی سے یہ اثاثہ ہم سے لیے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، مخالفین فاضل جج صاحبان کے ریمارکس ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں، جے آئی ٹی اب ایک ملغوبہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عامرعزیز کو غاصب مشرف کے دور میں شریف خاندان کے پیچھے لگایا گیاتھااس نام پر ہماے لیے مسائل کھڑے ہوئے۔ بلال رسول بھی میاں اظہر کے قریبی عزیزہیں ان کے بارے میں بھی ہماری شکایت پر تسلی بخش جواب نہ ملا۔تصویر جس آدمی نے لیک کی، اس کانام پتہ بتانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ جے آئی ٹی کے معزز رکن نے طارق شفیع سے غیرمہذب سلوک کیا۔ فون ٹیپ کرنے کا جے آئی ٹی نے عدالت کے سامنے تحریری اعتراف کیاہے۔ سعد رفیق نے کہاکہ ہم جاننا چاہیں گے کہ کس نے کس قانون کے تحت جے آئی ٹی کوفون ٹیپ کرنے کی اجازت دی، اگر ہم اس پر خاموش رہے تو زیادتی ہوگی، ہم نے وقت کے ساتھ سبق سیکھے ہیں، ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر دیگر اداروں کا احترام ہے تو منتخب پارلیمان اور حکومت کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ ہماری قیادت کو ججوں کے ریمارکس کے خلاف عدالت جانے کا قانونی مشورہ دیاگیا۔ سعد رفیق نے کہاکہ موجودہ صورتحال میں ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے کہاکہ پارٹی کی جانب سے سوال رکھنا چاہتاہوں کہ جے آئی ٹی کی سربراہی ایف آئی اے کو عدالتی حکم کے تحت دی گئی، مگر اب ہمارے حساس ادارے کے پاس اس کا کنٹرول ہے اس خبر کی ابھی تک عدالت نے وضاحت نہیں کی، ہمارے پاس ابھی تک عدالتی حکم کی کوئی نقل نہیں جس کے تحت سربراہی حساس ادارے کے سپرد کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ ایسا سلوک کیا جارہاہے کہ جیسے کوئی چوری کی گئی ہے، ہی کہاں ہوئی، کرپشن کہاں کی گئی ہے اس کا بتانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ پٹیشن میں کچھ اور بات تھی اور ا ب کیس کہیں اور جارہاہے۔ پریس کانفرنس سے وفاقی وزیرخواجہ آصف نے کہاکہ گار قطر کے سابق وزیراعظم کے بیان کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کاحصہ نہ بنایا گیا تو یہ رپورٹ ہمیں قابل قبول نہیں ہوگی۔ قطر کے خط کی تصدیق ہونا ضروری ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ نوازشریف کا آمریت کے دور میں مکمل احتساب ہوا، کوئی کرپشن کا کیس، کوئی ثبوت نواز شریف کے خلاف نہیں ہے، ہم احتساب سے گھبرانے والے نہیں، عدالت کے سوموٹو اختیار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہاکہ سسلین مافیا کے دور میں عدالتیں کام نہیں کرتیں اور بادشاہت میں کوئی بادشاہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔