عدلیہ کا سوتیلا باپ
Reading Time: 3 minutesیورپ کے ایک عوامی حمام کے اندر کسی نے پٹاخہ پھینک دیا تو وہاں گرم بھاپ کا مزہ لیتے درجنوں افراد نے اپنے تولئیے چھوڑ کر برہنہ حالت میں باہر سڑک پر دوڑ لگا دی۔ آج سپریم کورٹ میں سماعت دیکھ کر یوں لگا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے بھی کمرہ عدالت نمبر ایک میں کوئی پٹاخہ چھوڑ دیا ہے۔ پہلے تو تقریباً تمام ججز حضرات نے ریمارکس کے ذریعے باری باری یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اُن پر ذاتی طور پر خفیہ اداروں کا کبھی دباؤ نہیں آیا اور یا پھر کسی کو ہمت ہی نہئں ہوئی، ججوں اور اُن کے اہل خانہ کے ساتھ ہونے والے شرمناکُ واقعات متعلق سماعت میں یوں لگا کہ کٹہرے میں کھڑی سو سال کی بڑھیا کی گواہی سے سب خوفزدہ ہیں، وہ بڑھیا جج اور وکیل کے محلے کئ ہے اور دونوں کو ان کے خاندانوں کے کالے کرتوت یاد دلانے کی دھمکی لگا رہی ہے۔
شاید یہ ججز حضرات دنیا میں اکیلے آئے اور اکیلے ہی چلے جائیں گے، ان کا کوئی قریبی یا تو ہے نہیں یا پھر دنیا میں نہیں-
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مسرت ہلالی کے مطابق جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اُسے گھر بیٹھ جانا چاہئیے۔ مگر بات تو یہ ہے کہ دباؤ ڈالنے والے بیچارے سرکاری ملازموں پر بھی تو کسی کا دباؤ ہوتا ہے نا جو خود دباؤ پروف جج بھی نہیں ہوتے، اور پھر اگر کوئی جج ۴۴۰ وولٹ کے بجلی کے جھٹکے اور اپنے بیڈ رومز میں شریک حیات کیساتھ رومانٹک گانا پکچرائز کرانا برداشت کر بھی لے تو کیا گارنٹی ہے کہ اُس جج کا کوئی باوردی برادرِی نسبتی بھی ایسے دباؤ کو سہہ سکتا ہو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ گذشتہ چھہتر سال سے عدالتی نظام کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو پیرِ کامل جناب عدالتی سجادہ نشین نے دو ٹوک الفاظ میں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اُن کی سجادہ نشینی کے بعد اُن کی گدی کے فرینچائز مریدوں کو ڈرانے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی کر سکتا ہے، انھوں نے اپنے مریدوں کے گرد ایسا حصار کھینچ دیا ہے جو کسی خفیہ ادارے یا اُن کے جنات کو مریدوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ یہ اور بات ہے کہ پشاور کی فرنچائز نے بھی کچھ ایسے ناخلف جنات کی شکایت لگائی ہے جو افغانستان کے جعلی فون نمبروں سے اُن کی روح قبض کرنے کی دھمکیاں لگاتے تھے، یقین مانیں اپنے پیر کے جاہ و جلال و ھلال سے ممکنہ تباہی کے خوف سے پشاور کے مریدوں نے یہ تک نہیں بتایا کہ جنات کیطرف سے ایسی سنگین توہین عدالت پیر صاحب کی گدی نشینی کے بعد ہوئی یا پہلے، اگر ایسا پہلے ہوا تو اس میں اباواجداد کا قصور ہے نا؟ جائیں، اور کچھ نہیں تو قبر ہی اُکھاڑ لیں۔
کہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدلیہ کا باپ ہوتا ہے، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، عدلیہ بھی تو بزرگوں کی عمر باسٹھ سال ہوتے ہی باپ بدل لیتی ہے (اگر ایکسٹینشن نہ دینی ہو تو) ، اب اِس میں نئے منہ زور باپ بیچارے کا کیا قصور ہے اگر کمزور پچھلا باپ بیڈروم میں خفیہ کیمروں والی ویڈیوز کی لت لگا بیٹھا ہے۔ محض منہ زور باپ بھی چھ ماہ بعد بدل جائیگا اور حسبِ روایت اگلے باپ نے آتے ہی موجودہ باپ کی غلطیوں کو عاق کر دینا ہے۔ آخر چیف جسٹس فائز عیسی کی اِس دلیل کو اور کیسے سمجھا جائے کہ میں پچھلے دور کے واقعات کا ذمے دار نہیں۔ شاید چیف جسٹس کے حلف نامے میں کسی جن نے آئین کے دفاع جیسے الفاظ کی بجائے اپنے دور کا دفاع کرنے کے اکفاظ ڈال دئیے تھے۔ یعنی کہ جس طرح شھباز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کے ادوار کے ذمے دار نہیں اسی طرح قاضی فائز عیسی قاضی عمر عطا بندیال کے ادوار میں ججوں پر دباؤ کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتا۔
مختصر یہ کہ عدلیہ کے کسی باپ کے ریٹائر ہونے سے ایک دن پہلے اگر کسی جج کا بچی یا بچہ اٹھا لیا جائے تو عدلیہ کا نیا باپ کیا کہے گا ؟ یہی کہ یہ واقعہ َمیرے دور میں نہیں ہوا یا پھر وہ بچہ یا بچی میرے دور میں پیدا نہیں ہوئے تھے؟ جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب اگلا بچہ پیدا کرنے کی سوچیں؟ اور پکڑے گئے اغوا کاروں پر مقدمہ بنانے اور انہیں سزا دلوانے کی بجائے انہیں آزاد کر دیا جائے اور گھر آ کر اپنے مغوی بچوں سے مستقبل کے لیے تجاویز طلب کر لی جائیں، ایسےتو سوتیلا باپ بھی نہیں کرتا۔
پھر پیر شُف شُف فرماتے ہیں کہ ججوں پر دباؤ کے معاملے میں گندی سیاست نہ کی جائے، ویسے عدلیہ کے حمام سے تولیہ پھینک کر بھاگنے والوں کی حالت دیکھ کر لگتا ہے گندی سیاست نہیں گندی عدالت ہے جو اپنا باپ بدلنے میں دیر نہیں لگاتی۔