اہم خبریں کالم

لیہ کی فخریہ صحافت

جون 4, 2024 5 min

لیہ کی فخریہ صحافت

Reading Time: 5 minutes

مثلاً ہزار میں تین صفر ہوتے ہیں، دس ہزار میں چار مگر دس ہزار کے صفر فی البدیہہ ذہن میں نہیں آتے۔ پہلے ہزار کا ریفرنس آتا ہے پھر اس میں ایک صفر کا اضافہ۔ آپ ایک ارب کا ہندسہ تصور کریں تو آپ کو بہرحال کچھ سمے لگ جائے گا صفروں کی تعداد کا فیصلہ کرنے میں۔

فخرِ لیہ کو البتہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کی جانب سے شائع کی جانے والی خبروں میں سب سے بڑا مسئلہ صفر سے متعلق انتظامی امور کا رہا ہے۔ صفر درکار تعداد میں ہوں تو کرپشن کا اندازہ بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے جبکہ صفروں کی اصلی تعداد لکھی جائے تو خود خبر صفر ہوجاتی ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ فخرِ لیہ کی خبریں صفر ہیں۔ ایسا آپ نے سوچنا بھی نہیں یا چلیے، سوچ تو سکتے ہیں، کہہ نہیں سکتے ورنہ غالب اندیشہ ہے کہ سور اور کتے کی لڑائی میں آپ بھی شکار بن جائیں گے۔

سور اور کتے کی لڑائی سے یاد آیا۔ اس لڑائی کے متعلق ہمارا اصولی مؤقف ہے کہ سور بمقابلہ کتے کی لڑائی میں انسان کا وزن ہمیشہ لڑائی کے حق میں رہنا چاہیے۔ بیچ میں کوئی ڈیڑھ پون گدھا یا خچر بھی شامل ہوجائے تو یہ بونس تماشہ ٹھہرا، وزن تب بھی لڑائی کے پلڑے میں۔ چند برس ہوئے کہ فخرِ لیہ کے قد کو لے کر چند ناہنجار انصافی بونوں نے خوب ہڑبونگ مچائی۔ فخرِ لیہ نے مناسب وقت آتے ہی جوابی کاروائی کا آغاز کیا اور اب نفرت کے مذکورہ بالا ترجمان آخری خبریں آنے تک منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ نفرت کے مذکورہ بالا نمائندے چونکہ پاکستانی ہیں، اور تقیے کی نعمت کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لہٰذا فخرِ لیہ کو ان کے ہاتھوں مدر فخر انواع کی گالیاں پڑتے ہیں خود دیکھ چکا ہوں۔ پس اسی لیے آپ سے بھی گزارش ہے کہ براہ راست فخرِ لیہ کو مدر فخر کہنے سے گریز فرمائیے کہ آپ کو جھکا دیکھ کر فورا سے پیشتر پلٹ کر وار کریں گے۔

فخرِ لیہ یاروں کے یار ہیں، اور اگر آپ ایک بڑے کتب فروش ہیں اور انہیں اپنی دوکان پر اچھا خاصہ ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں تو پھر تو یہ آپ کے اترتے ہوئے پائجامےمیں اپنے قلم سے بقلم خود ناڑا ڈال کر اسے سہارا دینے کی بہترین کوشش بھی کر سکتے ہیں۔
معدودے روز گزرے کہ ایک صارف نے دارالحکومت کے ایک بڑے کتب فروش نام کی جانب سے کتب مہنگی بیچے جانے، ڈسکاؤنٹ نہ دیے جانے اور پھر کتب واپس نہ لیے جانے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
اتفاق دیکھئے کہ فخرِ لیہ فورا ہی اپنا قلم ان کے پائجامے کی جانب رخ کیے روانہ ہوگئے۔ جہاد بالقلم کی اس سے بہترین مثال شاذ ہے کہ آپ تلاش کر پائیں۔ اس میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ مثلاً خبر کی تحقیق کیسے ہوتی ہے، اس پر تجزیہ کیسے ہوتا ہے، اسے من چاہی دشا میں ٹوئسٹ کیسے کرتے ہیں، کسی کے اترتے ہوئے پائجامے میں صحافتی قلم سے ناڑا کیسے ڈالتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

فخرِ لیہ کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مذکورہ بالا کتب فروش کی ترجمانی کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ صارف دراصل وہ کتب خرید رہا تھا جو برطانیہ و کامن ویلتھ کی جانب سے پاکستان کو ارسال کی جاتی ہیں اور جن کی کم سے کم قیمت بھی بیس برطانوی پاؤنڈ ہے۔ فخرِ لیہ کی جانب سے انجمنِ گراں فروشاں کا یہ دفاع ناقابل تسخیر ہے، بیشک پھر خریدی جانے والی برطانوی کتب نمرہ احمد و عمیرہ احمد کے افسانے ہی کیوں نہ نکل آئیں۔ صحافی کا کام ہوتا ہے خبر دینا، تصدیق آپ خود کرتے پھریں، صحافی کو زحمت مت دیجیے۔ وہ یقینا آپ کے والدِ گرامی کا خانساماں نہیں۔ انجمنِ گراں فروشاں سے البتہ دلی لگاؤ ہے کہ شنید ہے وہ ان کی کتب فرنٹ پر رکھنے کی مہربانی کیا کرتے ہیں۔ کذاب کا منہ کالا، چھوڑو بہن ہمیں کیا۔

فخرِلیہ نے انجمنِ گراں فروشاں کے حق میں ایک اور تاویل کی تکرار بھی لگا رکھی ہے۔ فرماتے ہیں شکایتی ٹٹو صارف دراصل سامنے والی دوکان سے انہی کتب کی “چائنہ کاپی” اٹھا کر مذکورہ بالا گراں فروش سے بضد تھا کہ اسے تین ہزار والی کتاب پانسو میں دی جاوے۔ صارف سے براہ راست رابطہ تو نہ ہو پایا البتہ صارف کے مؤقف کی تائید کرنے والے ایک بزرگ یہ کہتے پائے گئے کہ “صارف کا تعلق چونکہ لیہ سے نہیں تھا لہٰذا یہ افواہ بعد از قیاس ہے کہ اسے برطانیہ کی اصیل نمرہ احمد کی کتاب اور اس کی چائنہ کاپی کے مابین تفریق کا ہنر حاصل نہ تھا”۔

فخرِ لیہ کو چند مزید اعزاز بھی حاصل ہیں۔ اپنی فیس بکی وقتی لکیر پر آپ رواں برس فروری میں ایک اور کتب فروش کی جانب سے فقط دس فیصد ڈسکاؤنٹ ملنے پر شدید برہمگی کا اظہار کرتے پائے گئے۔ میں اس مؤقف کے اصولی ہونے کی اصولی تائید کرتا ہوں۔ مزید یہ کہ میں فخرِ لیہ کے اس اصولی مؤقف کی بھی اصولی تائید کرتا ہوں کہ ان کے دوسرے ممدوح گراں فروش کو البتہ یہ حق حاصل ہے کہ ناصرف ایک فیصد ڈسکاؤنٹ بھی نہ دے بلکہ باہر نکلتے ہوئے صارف کو دو جوتے بھی مارے۔

ماضی میں فخرِ لیہ دس فیصد ڈسکاؤنٹ جیسا جرم کرنے والی کتابی آؤٹ لیٹ کے بارے میں یہ کہتے بھی پائے گئے کہ وہاں موجود عملہ بیزاری و اکتاہٹ کا شاہکار دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد اپنے اس تاریخ سوز مضمون میں فخرِ لیہ نے لندن میں گزرے چھ ماہ سے ہمیں متاثر کرنے کی کوشش فرماتے ہوئے وہاں کی ایک کتب فروش بزرگ خاتون کی جانب سے حسن سلوک کی کہانی بھی سنائی۔ یہ تو شکر ہے کہ صاحبِ مضمونِ ھذا بذات خود میلبرن میں رہائش پذیر ہے وگرنہ چھ ماہ کے اس طویل تجربے کی لامتناہی دنیا سے متاثر ہوجانا عین فطری تھا۔ فخرِ لیہ البتہ دس فیصد ڈسکاؤنٹ دینے والے کتابی آؤٹ لیٹ کے عملے کی جانب سے یاسیت کا اظہار کرتے ہوئے غالباً یہ بھول چکے تھے کہ ان کا ممدوح آؤٹ لیٹ صارف کے وچ کار داخل ہوتے ہی اپنا عملہ اگلے کی ریکی پر مختص کر ڈالتا ہے کہ اگلا کتاب اٹھا کر اسے پڑھنے کی جرات نہ کر لے یا اس کی تصویر نہ بنا لے۔ میں فخرِلیہ کے اس اصولی مؤقف کے بھی ساتھ کھڑا ہوں۔

قارئینِ کرام ! زرد صحافت نامی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ یہ سب حاسدین کی فکری اختراعات ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ نیز یہ کہ فخرِ لیہ ایک بے باک، بے پر اور جری صحافی ہیں۔ آپ کی حق گوئی کی امثال تو جابجا بکھری ہی مل جاتی ہیں تاہم خبر حاصل کرنے کے بعد اس پر آپ جو تحقیق و تصدیق کرتے ہیں وہ مصنوعی سونے کے پانی والے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اپنے ممدوح گراں فروش کے دفاع میں جس طرح آپ نے فریق ثانی کا مؤقف لیے بغیر اس کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے شائع کیا، بلاشبہ یہ آپ کے صحافتی اصولوں کا مظہر ہے۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جس کا مرکزی کردار اور متاثر فریق نہ تو گمنام ہے نہ ہی نامعلوم۔ سب کچھ عوامی طور پر ہوا، تاہم اس خبر کی تحقیق کے لیے فخرِ لیہ نے جس طرز کی کمال تحقیق فرمائی، بخدا ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس پر آپ کا بے لاگ و حق پر مبنی تجزیہ لائقِ تحسین اور قابل تقلید ہے الا یہ کہ اس قماش کا تجزیہ آپ نے فخرِ لیہ پر کرنے کی جسارت فرمائی تو فخرِ لیہ فورا سے پیشتر اپنے وکیل کو فون کر بیٹھیں گے جن کا نمبر انہوں نے یقیناً سپیڈ ڈائل پر 69 کے ہندسے میں محفوظ کر رکھا ہے۔

اس سے پہلے فقط احمد پور شرقیہ کے مشہور صحافی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ باچیز کے قلم سے ان کی مدح سرائی ہوتی۔ آج باچیز فخرِ لیہ کی تحسین و ستائش پر مجبور ہے۔

لیہ کی فخریہ صحافت کو ہمارا فخریہ بلکہ مدر فخریہ سلام پیش ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے