کالم

عدالتیں، قانون اور انصاف

فروری 7, 2017 4 min

عدالتیں، قانون اور انصاف

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ سے اے وحید مراد
یہ فیصل آباد کے چک آربی 202 کا واقعہ ہے۔ انتیس جون 2002 کی بات ہے جب محمد عالم کو ایک بازار میں قتل کیا گیا۔ پانچ افراد کے خلاف کئی گھنٹے گزرنے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا اور وہ سب مفرور ہوگئے۔ دو سال بعد ایک ملزم ندیم شاہ نے گرفتاری دیدی۔ مقدمہ چلا اور عدالت نے سزائے موت سنا دی، سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی جہاں اس کو کم کرکے عمر قید کردیاگیا۔ ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی گئی۔
عدالت عظمی میں جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اپیل سنی۔ ملزم کا وکیل حاضر نہیںتھا۔ ججوں نے مقدمے کی پوری فائل پڑھی ہوئی تھی۔ پنجاب سرکار کے وکیل نے کیس کا پس منظر بتایا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا مقدمہ درج کرانے والے مدعی نے لکھوایا ہے کہ قتل شام کے وقت بازار میں ہوا، مدعی محمد علی اس مقدمے میں مقتول محمد عالم کا بھائی ہے۔ کہتا ہے کہ ان کو کسی نے بتایا تھا ملزمان بھرے بازار میں ان کو گالیاں دے رہے ہیں، یہ دونوں بھائی وہاں گئے، تکرار ہوئی، ملزمان نے فائرنگ کی اور محمد عالم مارا گیا، ان کے پاس ایک ہی گواہ محمد جاوید ہے جو ان کے مطابق وہاں دکاندار ہے مگر یہ بات کسی تفتیش یا جرح میں ثابت نہیں کی گئی۔ جسٹس دوست محمد نے کہا جب مخبر نے ان کو بتایا کہ ملزمان چوک میں کھڑے ہوکر گالیاں دے رہے ہیں تو یہ بھائی خالی ہاتھ تو نہیں گئے ہونگے؟۔ مقدمہ کئی گھنٹوں بعد درج کیا گیا، دوسری جانب پولیس کے تفتیشی نے لکھاہے کہ جب وہ موقع پر گیا تو وہاں نعش پڑی تھی اور اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اگرمدعی بھی مقتول کے ساتھ تھا اور جس طرح اس نے بیان دیاہے تو پھر روایات کے مطابق اس کو سب سے پہلے مقتول کی آنکھیں بند کرنی تھیں۔ عجیب سی کہانی ہے، پوسٹ مارٹم اگلے دن ہواہے اور اس کی میں موت کاو قت پوسٹ مارٹم سے بارہ گھنٹے قبل کا بتایا گیا ہے، اس طرح یہ وقوعہ آدھی رات کا بنتاہے، علاقے کا نقشہ دیکھنے کے بعد یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ وہاں گواہ جاوید کی کوئی دکان ہے۔ ایسا لگتاہے کہ نعش وہاں آدھی رات کو پھینکی گئی اور مدعی کو معلوم ہوا تو اس نے مقدمہ درج کراتے ہوئے شام کا وقت لکھوایا تاکہ کہانی میں گواہ ڈالا جاسکے۔
جسٹس دوست محمد نے پوچھا کہ باقی ملزمان گرفتار ہوئے یا نہیں؟۔ سرکاری وکیل نے کہا تاحال مفر ور ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا وہ اس مقدمے کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔یہ بات عدالت میں ثابت ہوگئی تھی کہ مقتول سے ملزم کی براہ راست کوئی دشمنی نہیں تھی، دو فریقوں کا جھگڑا تھا اس میں بھی مقتول کسی فریق کی جانب سے گواہ یا نامزد ملزم نہ تھا۔ ملزمان پر عمومی نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول کے جسم کے سامنے سے چوتھائی انچ زخموں کے چھ نشان ہیں اور یہ چھرے ہیں۔ ملزم سے جو کاربائن بعد میں برآمد کی گئی اس کوقتل کے ساتھ جوڑا نہیں جاسکا، فرانزک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ بھی نہیں ہے کہ اسی آلے سے قتل کیا گیا۔ ملزم ندیم شاہ بارہ سال جیل میں گزار چکاہے، ہائیکورٹ نے عمر قید کرائی تھی۔ سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ درج بالا حقائق کو دیکھتے ہوئے ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتی ہے۔ (قانون کا منشا ہے کہ دس گناہ گار بچ جائیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو)۔
دوسرا مقدمہ ۔۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں نے بچے کے اغواء اور قتل کے الزام میں گرفتار محمد اسلم اور محمد اکرم کی عمر قید کے خلاف اپیل سنی۔ مقدمے کے مطابق دونوں ملزمان نے ضلع قصور کے تھانہ صدر کے علاقے میں ایک بچے علی حسن کو اکیس دسمبر 2008 کو تاوان کیلئے اغوا کیا۔ پانچ لاکھ تاوان مانگا اور ناکامی پر مبینہ طورپر بچے کو قتل کر دیا۔ عدالت نے ملزمان کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت سزائے موت اور جرمانہ سنایا، ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی تو جزوی طورپر منظور کرتے ہوئے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا بچہ 20 دسمبر کو اغوا ہوا، اکیس کو تاوان کی کال موصول ہوئی۔ بائیس دسمبر کو پولیس کو آگاہ کیا۔ تئیس دسمبر کو ایک گواہ نے مدعی کو بتایا اس نے بچے علی حسن کو ملزمان نعمت علی اور لیاقت علی کے ساتھ  دیکھا تھا۔ اس پر مدعی نے پولیس کو ضمنی بیان دیا جس پر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا مبینہ اغوا، قتل کا کوئی عینی شاہد نہیں ، کوئی تاوان نہیں ادا کیاگیا، سارا مقدمہ واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر چلایا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ استغاثہ نے بھی مبینہ مغوی کی نعش کی نشاندہی اور بازیابی پر ہی انحصار کیا ، گواہ کا بیان انتیس دسمبر کو قلمبند کیا گیاحالانکہ نعش چھ دن قبل مل گئی تھی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا ڈیڑھ سو سال ہوگئے پولیس کے قانون کو، مگر آج تک تفتیش درست نہ کی جاسکی، قانون میں لکھا ہے کہ مشترکہ برآمدگی کوایسا ثبوت نہیں مانا جاتا کہ جس پر عدالتیں فیصلہ کریں مگر اس کے باوجود تفتیشی افسر نے دوملزمان کو ایک ساتھ لے جاکر نعش برآمد کی اور پھر ایک ساتھ ہی موبائل برآمد کرایاگیا، اس طرح قانونی طورپر استغاثہ کے پاس ایسے مضبوط شواہد نہیں رہے کہ شک سے بالاتر ہوکر ملزمان کو مجرم ثابت کرسکے، عدالت شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پنجاب کے سرکاری وکیل سے کہا کہ کیا آپ پولیس کے اس تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کریں گے؟ اس نے نالائقی سے یا جان بوجھ کر سارا کیس خراب کیا، ناقص تفتیش سے کیس کو برباد کرکے ملزمان کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے