آئی ایس آئی کس کے ماتحت؟
Reading Time: 2 minutesسابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی کا صرف قانون بنا دینے سے مقاصد حاصل نہیں ہونگے، معلومات لینے کی کوشش کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں اگر قومی سلامتی کےادارے کرپشن میں ملوث ہوں تو سوال پوچھا جانا چاہئے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں رائٹ ٹو انفارمیشن بل پر منعقدہ سیمینار سے خطاب میں سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ عدالت عظمی کے حوالے سے ارکان پارلیمنٹ نے کچھ سوالات سینٹ میں پوچھے ہیں لیکن ہمیں جواب نہیں ملا۔۔۔ صرف قانون بنا دینا اور لکھ دینا کافی نہیں ہوتا۔۔۔ انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو خوش خبری سنائی تھی کہ اب کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا۔۔ لیکن اسکے بعد کئی بار مارشل لاء لگے اور آئین توڑا گیا۔۔۔ مارشل لاء لگا تو عدالت نے ایک ڈکٹیٹر کو آئین میں تبدیلی کی اجازت دی، یہ سوال کس سے پوچھیں کیا انکے درمیان کوئی ڈیل تھی؟ انھوں نے کہا کہ معلومات تک رسائی کا بل ہمیں قانونی حق تو دیتا ہے لیکن ہم اپنی درخواست لے کر کس کے پاس جائیں؟ کوئی انفارمیشن لینے کی کوشش کرے تو اسے قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کوئی بھی قانون بنائیں اس میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔۔ قانون ایسا ہو جس کا اطلاق پارلیمان اور عدلیہ سمیت تمام داروں پر ہو۔۔ انھوں نے کہا کہ رائیٹ ٹو انفارمیشن کا قانون صوبوں نے پاس کیا مگر مرکز میں نہیں بنا۔ قومی اسمبلی میں 5 بار قانون منظور کروانے کی کوشش کی۔۔ غور طلب بات ہے کہ قانون منظور نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ ہم نے سکیورٹی اداروں کو تحفظات جاننے کے لئے خط لکھا۔ سکیورٹی اداروں نے جواب دیا حساس معاملہ ہے اس سے دور رہیں۔۔ اگر قومی سلامتی کےادارے کرپشن میں ملوث ہوں تو سوال پوچھا جانا چاہئے۔۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ میں وزارت دفاع سے پوچھا گیا کہ آئی ایس آئی کس کے ماتحت ہے تو جواب ملا کہ یہ خفیہ اور حساس معاملہ ہے _