آزادی کے لیے احتجاج
Reading Time: < 1 minuteاسلام آباد پریس کلب کے سامنے صحافیوں نے سینئر رپورٹر احمد نورانی پر قاتلانہ حملے کے خلاف احتجاج کیا، مظاہرے میں راولپنڈی اسلام آباد کے درجنوں صحافیوں نے شرکت کی، مظاہرین نے آزادی صحافت کے لیے نعرے بازی کی اور احمد نورانی پر حملہ کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا_ کیپٹل ٹی وی کے بیورو چیف مرتضٰی سولنگی نے احتجاج میں شریک صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاموشی کوئی پیغام نہیں ہوتا کیونکہ احمد نورانی نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کر کے خاموش اختیار کر لی تھی مگر اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا، صحافی و اینکر حامد میر نے کہا کہ ریاست کے ادارے جب ایسے حملہ آوروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہتے ہیں تو شکوک و شبہات بڑھتے ہیں، اس سے پہلے بھی صحافیوں پر حملے کیے گئے اور تشدد کی یہ لہر نئی نہیں، اختلاف کرنے والوں کو خاموش کرانا کوئی حل نہیں _
صحافیوں کا احتجاج جاری تھا کہ قریب ہی قائداعظم یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ اکٹھے ہو گئے اور اپنے حقوق کے لیے نعرے لگائے، طلبہ نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ یونیورسٹی چاہیے چھاؤنی نہیں، طلبہ نے یونیورسٹی سے نکالے گئے ساتھیوں کی بحالی کا مطالبہ کیا _
اسی دوران گاڑیوں پر قبائلی علاقوں سے آنے والے مظاہرین کا قافلہ پہنچا جو لاؤڈ-اسپیکر پر فاٹا میں نافذ ایف سی آر قانون کے مکمل خاتمے اور آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے _
قبائل کی ریلی کے پریس کلب پہنچنے کے بعد سڑک پر موٹر سائیکل او سائیکل سواروں کی ریلی نمودار ہوئی جو کشمیر کی آزادی کے لیے یوم سیاہ منا رہے تھے، انہوں نے بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعروں والے پلے کارڈز آویزاں کر رکھے تھے _