بحریہ ٹاؤن کراچی کیسے بنا
Reading Time: 2 minutesسپر یم کورٹ نے حکومت سندھ کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بحریہ ٹاﺅن کو دی گئی زمین کی قیمتوں، زمین کی حالت اور حقائق پر مبنی تفصلی چارٹ جمع کرانے کےلئے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 20نومبر تک ملتوی کردی ۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ اتھارٹی نے متعلقہ زمینوں کا پی سی ون قبول کر لیا تھااورتمام سکیموں کا پی سی ون مقررہ وقت میں مکمل کر لیا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے زمینوں کا کنٹرول حاصل کر کے وہاں اتھارٹی کے قوانین بھی نافذ کر دیئے تھے اور اتھارٹی کے قوانین کے مطابق اتھارٹی کسی دوسری جگہ سے زمینوں کا تبادلہ کر سکتی ہے، جسٹس اعجاز افضل خان نے استفسار کیا کہ کیا جس زمین سے تبادلہ کیا گیا اس کی قیمت ملیر کی زمینوں کے برابر تھی ؟جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ملیر ڈویلپمنٹ نے سندھ حکومت کو جنوری دوہزار چودہ میں زمین کے تبادلے کے لیے خط لکھا کیونکہ مروجہ قانون کے مطابق حکومتی زمینوں کا تبادلہ برابر مالیت کی پرائیویٹ زمین سے کیا جا سکتا ہے فاروق نائیک نے بتایا کہ سندھ کے چھ اضلاع میں تریسٹھ فیصد زمین ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ہے اور زمین کی قیمتوں کا تعین سندھ حکومت کرتی ہے اس لئے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بھی حاصل کردہ زمین کی قیمتوں کے تعین کے لیے صوبائی حکومت کو خط لکھاجس پر حکومت نے ایک لاکھ پچیس ہزار فی ایکڑ قیمت مقرر کی۔ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ حاصل کردہ زمینوں کا تبادلہ گڈاپ کی زمینوں سے کیا گیا ۔ عدالتی ہدایت پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت مہلت فراہم کرے تمام زمینوں کا قیمتوں کے حساب سے چارٹ فراہم کروں گا جبکہ تمام زمین کی حالت اور حقائق کے بارے میں چارٹ واضح کروں گا۔کیس کی مزید سماعت 20 نومبر تک ملتوی کردی _ واضح رہے کہ سندھ حکومت نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے اکیس ہزار ایکڑ زمین بحریہ ٹاؤن کو دی ہے جس کے خلاف درخواست آنے پر سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں مقدمے کی سماعت شروع کی تھی مگر دو سال گزرنے کے باوجود کیس تاحال پوائنٹ زیرو پر ہے اور اس دوران بحریہ ٹاؤن نے علاقے قبضے میں لے کر گوٹھ خالی کرا لیے ہیں _