چیف جسٹس اور وزیراعلی کا مکالمہ
Reading Time: 2 minutesچیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سندھ میں صاف پانی اور نکاس سے متعلق درخواست کی سماعت کی ۔ عدالت میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صاف پانی کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، پینے کے پانی میں انسانی فضلہ دانستہ شامل کیا جا رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے عدالت میں بولنے کی اجازت چاہی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے درخواست گزار شہاب اوستو کی پانی پر دستاویزی فلم پروجیکٹر پر دیکھ لیں ۔ جس کے بعد سوال ہوا تو وزیراعلیٰ سندھ نے عدالت کو بتایا کہ جو ویڈیو چلائی گئی وہ درخواست گزار کی بنائی ہوئی ہے ۔ صورتحال اتنی سنگین نہیں۔ موقع ملا تو بہت جلد سپریم کورٹ میں ویڈیو پیش کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شاہ صاحب، آپ اس ویڈیو کو چھوڑیں، کمیشن کی رپورٹ ہی دیکھ لیں، کمیشن کی رپورٹ کی سنگینی کا جائزہ لیں۔ رپورٹ سے مسائل کا حل تلاش کریں،کمیشن کی رپورٹ مسئلےکے حل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا کہ ہمارا مقصدصرف یہ ہےکہ لوگوں کو آلودہ پانی سےنجات دلائی جائے،اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کی مدد کریں گے۔ ہم دونوں تھر کے شہر مٹھی چلتے ہیں آپ بھی وہاں ایک گلاس پانی پیئیں میں بھی پی لوں گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواہش تھی چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں ہوتے اور یہ صورتحال دیکھتے تاکہ انہیں بھی معلوم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے، بلاول بھٹو دیکھیں کہ لاڑکانہ اور دیگر شہروں کے لوگ کون سا پانی پی رہے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آپ کو مسائل حل کرنے کے لیے لوگوں نے منتخب کیا، پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں کوئی معاملہ عدالت تک نہیں آیا۔ انتظامیہ کی ناکامی کے بعد لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ۔ وزیراعلی نے وضاحت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ صاحب، ان باتوں کو چھوڑیں کہ مسائل کب حل ہوں گے۔ ہم یہاں مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں لہٰذا مل کر کوئی حل نکالنا ہوگا تاکہ مسئلہ حل ہوسکے۔ ہم اس پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ آپ نے سب کچھ کہہ بھی دیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ کچھ کہنا نہیں چاہتے جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے ۔