نااہلی مدت تعین کیس فیصلہ محفوظ
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے آرٹیکل باسٹھ ون ایف نااہلی مدت تعین کیس میں سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے _ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کے آخر میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیے _
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی مدت کا تعین پارلیمنٹ ہی قانون سازی کے ذریعے کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال نااہلی کی مدت کے تعین کا ہے۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں 62 ون ایف کے تحت مدت کا تعین نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو حل کرنا چاہیئے۔ اشتر اوصاف نے کہا کہ جب تک پارلیمان قانون سازی نہیں کرتی تو ڈکلییریشن موجود رہے گا۔ اشتر اوصاف نے کہا کہ آئین میں نااہلی ڈکلیئریشن کو ریوزٹ (ختم) کرنے کا میکنزم بھی نہیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے،یہ کسی شخص کے بنیادی حقوق سے بھی جڑا معاملہ ہے جس کی آئین ضمانت دیتا ہے۔ یہاں سوال نااہلی کی مدت کے تعین کاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ داغ (نااہلی اور صادق وامین نہ ہونا) اس شخص اور اس کے خاندان کیلئے موت تک رہے گا یا صرف الیکشن لڑنے کی حد تک ہے؟۔کیا عدالتی ڈیکلریشن کااثر زندگی کے دیگر معاملات پر بھی ہے؟۔ باسٹھ ون ایف کی تشریح کرتے وقت ان سوالات کوبھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عام قوانین کے تحت سزا کا اثر صرف اسی حد تک ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے سب سے پہلے مدت کے تعین کے سوال کو دیکھنا ہے، اس پر اپنی رائے دیں۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ کیس ٹو کیس ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ جس کو نااہل کیا گیا اس کے خلاف فیصلہ کیا ہے، کس بنیاد پر ہے، کیا اس نے اعتماد کو مجروح کیا؟ اعتماد کس طرح مجروح ہوا، اس پر بھی واضح ہونا چاہیے۔ کیا نااہلی جعل سازی کی بنیاد پرہوئی؟ اور کیا کاغذات نامزدگی میں غلطی ہوئی تھی کہ جس پر نااہل کیا گیا، یہ عدالتی فیصلوں پر منحصر ہوگا۔ چیف جسٹس نے پوچھاکہ کون سے فیصلے؟فیصلہ تو ایک ہی ہے کہ صادق وامین نہ ہونے پر نااہلی ہوجاتی ہے، مختلف افراد کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر نااہل کیا گیا مگر فیصلہ کا اثر ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کی مدت کیا ہوگی اس کا سوال ہے۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے،اور نہ ہی آئین میں کوئی طریقہ کار یا میکنزم ہے کہ عدالت کے ڈیکلریشن کو ری وزٹ کرے، اس وقت تک جب تک پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرتی عدالت کی جانب سے نااہلی وصادق وامین نہ ہونے کا ڈیکلریشن موجود رہے گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی رائے آگئی ہے، مزید بھی کچھ کہنا چاہیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ معاملہ پارلیمان کو حل کرنا چاہیے۔