سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی کیس
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دی گئی ہزاروں ایکڑ اراضی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے ہیں کہ دیکھنا ہوگا کہ اتھارٹی نے سونے کا تبادلہ کھنکتی مٹی سے تو نہیں کر دیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ کیا ہرطرح کی زمین پرائیویٹ ڈویلپر کو دیدی جائے تو اس کی مرضی ہے کہ جیسے بنائے؟
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے کی سماعت کی۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق عدالت میں ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ کے محکمہ مال کے و کیل فاروق نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ 1999 میں اسی علاقے میں تعمیرات پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے نوٹس جاری کیے تھے، اس زمین سے تعمیرات ہٹانے کے نوٹس نئے نہیں ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے پوچھاکہ اس علاقے کا کوئی ماسٹر پلان ہوگا جس کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیے گئے ہوں گے وہ منصوبہ کہاں ہے؟۔ وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت میں صاف ہاتھوں کے ساتھ آیا ہوں، ساری چیزیں اور معاملات سامنے لاؤں گا، مجھے کچھ وقت دیدیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم نے آپ کو نہیں روکا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ عدالت کو مختلف چیز بتا رہے ہیں جو متعلقہ نہیں، کس قانون کے تحت اتھارٹی کی زمین پر نجی ڈویلپر کو تعمیرات کی اجازت دی گئی؟ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ چوبیس جنوری دوہزار چودہ کو ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے ملیر اتھارٹی نے اس علاقے میں ماسٹر پروگرام اسکیم متعارف کرائی۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ماسٹرپلان اور اسکیم الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ماسٹر پلان پہلے اور اسکیم کا بعد میں بتائیں، یہ صرف نوٹی فیکیشن ہے عملی طور پر زمین پر ایسا کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ علاقے میں تعمیرات کیلئے بلیوپرنٹ، لے آؤٹ، روڈ پلان کے ماسٹر پروگرام کا عدالت کو نہیں بتایا جارہا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا بگھی کو گھوڑے کے آگے باندھاجا رہا ہے؟۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل فاروق نائیک نے کہاکہ وہ سارا نقشہ بھی عدالت کو دیں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ابھی بنائیں گے یا بنا ہوا ہے؟۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم کھلے دماغ کے ساتھ بیٹھ کر سن رہے ہیں، یہ دیکھنا ہے کہ زمین کا تبادلہ قانون کے مطابق کیا گیا یا صرف ایک شخص کو نوازنے کیلئے یہ سب کیا گیا۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں زمین کی قیمت دوہزار گیارہ میں مقرر کی گئی جبکہ بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ دوہزار چودہ میں آیا۔ ملیراتھارٹی نے خود سے بھی سات نوٹی فیکیشنز جاری کرکے نجی ڈویلپروں سے مل کر اسکیم لانچ کی جس میں ہزاروں گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ سب صرف کاغذوں پر ہی نظر آرہے ہیں بلکہ صرف ہوامیں ہیں۔ وکیل فاروق نائیک نے بتایاکہ بحریہ ٹاؤن سے زمین تبادلے پر اتھارٹی کو پونے چارارب روپے ملے ہیں۔
عدالت کا وقت ختم ہونے پر مقدمے کی سماعت چھ مارچ تک ملتوی کردی گئی۔