حقانی کو ایک ماہ میں لائیں
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دے دیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی احکامات پر عمل کرناحکومت کا کام ہے ، میڈیاپر زیرالتوا مقدمات پر کوئی رائے زنی نہیں ہونی چاہیے
سپریم کورٹ میں میمو کمیشن سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی، پاکستان 24 کے مطابق سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری خارجہ عدالتی حکم پر پیش ہوئے ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ اب تک ہونے والی پیشرفت جمع کرچکے ہیں،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سیکرٹری کو رپورٹ کیلئے نہیں بلایا تھا، رات کو ٹی وی پر بیٹھ کرلوگ کہتے ہیں گڑھے مردے اکھاڑے جارہے ہیں ، زیر التواء مقدمات پر گفتگو پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں، میڈیا پر زیرالتوا مقدمات پر کوئی رائے زنی نہیں ہونی چاہیے، مسئلہ عدالتی حکم پر عملدرامد کا ہے، جب کیس کا فیصلہ آجائے تو اس کے بعد جو مرضی کہتے رہیں،
پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک مثبت پیش رفت نہیں ہوئی، ہوسکتاہے نوٹس دے کر سب کوبلالیں ، حسین حقانی کی واپسی کے لئے مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے، بتائیں حسین حقانی کو کب واپس لایا جائیگا،
ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ حسین حقانی کی واپسی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، دائمی وارنٹ کے ا جراء کے بعد ریڈ وارنٹ کیلئے انٹرپول سے رابطہ کریں گے، میں خود بھی امریکا جائوں گا، وہاں وکیل کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی،
چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی کو کہا آپ کوشش کریں حسین حقانی آتے ہیں یا نہیں الگ بات ہے، عدالت کیس ملتوی کرنے کیلئے نہیں بیٹھی ہوئی، بتا دیں کہ کتنے دنوں میں نتائج دے سکتے ہیں، ایف آئی اے نے پیشرفت کیلئے عدالت سے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا،
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ماہ میں لائحہ عمل بنا کر آگاہ کریں، ایک ماہ بعد مذید مہلت نہیں دی جائے گی،عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی گئی