پاکستان پاکستان24

جوڈیشل این آر او ہوتا کیا ہے

مارچ 29, 2018 2 min

جوڈیشل این آر او ہوتا کیا ہے

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ میں وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار اور وکیل نعیم بخاری کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے کہا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر آپ بھی بہت باتیں کرتے ہیں، عدلیہ پر جو جائز تنقید ہے کرنی چاہیے، جائز تنقید سے ہماری اصلاح ہو گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ روز کسی نے چیف جسٹس کے کراچی میں لگائے گئے اشتہارات کے بارے میں بات کی، ان کو یہ نہیں معلوم میں نے خود وہ اشتہارات ہٹانے کا حکم کر رکھا ہے ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے انتباہ کیا کہ اگر میں آج پابندی لگا دوں تو بہت سے لوگوں کا کام بند ہو جائے گا ۔ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ جوڈیشل مارشل لاء کے بارے میں بہت باتیں ہو رہی ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اگر میں کہوں کچھ نہیں آ رہا تو پھر آپ کیا کہیں گے، اور یہ جوڈیشل این آر او ہوتا کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں واضح کر دوں کچھ نہیں آ رہا، ملک میں نہ جوڈیشل این آر او اور نہ ہی جوڈیشل مارشل آ رہا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں صرف آئین رہے گا باقی کچھ نہیں ہو گا، ملک میں صرف جمہوریت ہوگی، باقی کچھ نہیں ہو گا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت میں موجود ڈاکٹرز  نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا اور کہا کہ آپ خود کو بابا کہتے ہیں، بطور درخواست گزار میں اپنے بابے کو آج اپنے ساتھ ہونے والے ظلم سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، آپ ہم مظلوموں کی آواز سنیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں میں کچھ کروں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کچھ نہ کروں، مظلوموں کی فریاد سنوں یا بعض لوگوں کی باتیں سن کر خاموش رہوں؟ ۔ وفاقی ہسپتالوں میں ڈیپوٹیشن پر آئے ڈاکٹرز کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ زندہ قومیں روتی نہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق درخواست گزار ڈاکٹرز نے کہا کہ ہسپتالوں میں تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے، اربوں روپے کی کرپشن صرف پمز میں کی گئی ہے ۔

ایک ڈاکٹر نے کہا کہ میری گزارش ہے ایسی کمیٹی بنائی جائے جو سیاسی بنیادوں پر فیصلے نہ کرے، ہسپتالوں کی کرپشن کی تحقیقات کیلئے پانامہ طرز کی جے آئی ٹی بنائی جائے، پانامہ جے آئی ٹی پر عدالت کو سلام پیش کرتے ہیں، درخواست گزار ڈاکٹر نے کہا کہ اگر فیصلہ میرٹ پر آئے تو نہیں کہوں گا مجھے کیوں نکالا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بہت اعلی ظرف ہیں جو پوچھ ہی نہیں رہے مجھے کیوں نکالا، بہت اہم میٹنگ تھی لیکن سب کیس سنوں گا، فاٹا ہماراحصہ ہے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، میری ذمہ داری میں شامل ہے سائل کی آواز سنوں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک عدالت کا حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا کسی کو نکالا نہیں جائے گا نہ کسی کی تنخواہ رکے گی  ۔ درخواست گزار ڈاکٹر اعجاز قدیر نے کہا کہ میرے والد کا نام بھی سپریم کورٹ میں تختی پر لکھا ہے، جسٹس عبدالقدیر چوہدری سپریم کورٹ کے جج تھے ۔ ڈاکٹر اعجاز قدیر نے الزام لگایا کہ ہسپتالوں میں مشینری کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن ہوئی، وزارت کیڈ اور ہسپتالوں کے افسران مریضوں کے اربوں روپے کھا گئے ۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے