لاپتہ افراد کا فیصلہ اللہ کرے گا
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران لاپتہ شہری خیر الرحمان کے بوڑھے والد نے عدالت میں کہا ہے کہ اب ہم کچھ نہیں بولے گا، اللہ فیصلہ کرے گا ۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سات اپریل کو راولپنڈی صدر سے الیکٹریکل انجینئر لئیق اسلم کو اٹھایا گیا ہے، آمنہ مسعود نے کہا کہ لئیق پی ایچ ڈی ہے اس کو آرمی کی گاڑی میں لے جایا گیا، درخواست دی تھی مگر سپریم کورٹ رجسٹرار دفتر نے واپس کر دی ۔ عدالت نے حکم دیا کہ درخواست لی جائے اور سماعت کے لیے لگائی جائے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس کے پیش نہ ہونے پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان سے رپورٹ مانگی تھی، رپورٹ پیش کرنا چاہئے تھی، بتاتے کہ یہ لوگ کس جرم میں اور کیوں زیرحراست رکھے گئے ہیں ۔ کیا ان افراد کو ویسے ہی زیر حراست رکھا گیا ہے؟
دس منٹ بعد ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے تو درخواست گزار آمنہ جنجوعہ نے بتایا کہ ان کے کیس میں سپریم کورٹ سنہ ۲۰۱۴ میں حکم جاری کر چکی ہے اب ۲۰۱۸ہے، مجھے توقع ہے کہ اب انصاف ہوگا، امید کرتے ہیں کہ آئندہ سماعت پر اس حوالے سے پیش رفت ہوگی ۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے عدالت کو بتایا کہ فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز میں موجود افراد کی مکمل رپورٹ تیار کی جا رہی ہے، کافی سارا کام ہو گیا ہے تھوڑا سا رہ گیا ہے مہلت دی جائے ۔ رپورٹ مکمل نہیں ہوئی اس لیے صرف ایک خلاصہ عدالت میں دو صٖفحات پر پیش کیا ہے اس کو خفیہ رکھا جائے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے فراہم کی گئی دستاویز پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ ۲۵۳ افراد کا کیا معاملہ ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان افراد کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تاہم ان تمام کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ جسٹس اعجاز نے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی فرد بھی زیر حراست ہے جس کا مقدمہ ابھی تک درج ہی نہ کیا گیا ہو؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایا کہ اس بارے میں معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں، اس کیلئے تھوڑی مہلت دی جائے ۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم مزید کتنا انتظار کر سکتے ہیں۔ ان افراد پر الزامات اور مقدمات کی نوعیت کی تفصیل فراہم کی جائے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس فیصل عرب نے رپورٹ پڑھتے ہوئے پوچھا کہ کیا اب ۱۲۰۰ افراد زیر حراست ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے بتایا کہ کل ۱۳۳۰ افراد تھے، اب ان میں سے کچھ کم ہو گئے ہیں ۔
آمنہ مسعود نے بتایا کہ تین افراد حنیف، اسامہ اور قاسم کی درخواستیں بھی ہیں مگر ان پر پیش رفت نہیں ہوئی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم اس کا بھی نوٹس لے لیتے ہیں، اگر یہ لاپتہ ہیں تب متعلقہ حکام ڈھونڈ کر لائیں اور اگر یہ حراست میں ہیں تو ان پر الزامات کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں، تفصیلی جواب لے لیتے ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق آمنہ مسعود نے کہا کہ سپریم کورٹ تیرہ مئی ۲۰۱۴ کو ان درخواستوں پر حکم جاری کر چکی ہے لیکن آج تک جواب جمع نہیں کرایا گیا ۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا یہ تینوں افراد جبری گمشدگی کا شکار ہیں یا زیرحراست ہیں اس پر مفصل جواب دیا جائے ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ زیر حراست ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق درخواست گزاروں کے وکیل انعام الرحیم نے پوچھا کہ ہمیں بتایا جائے کس جرم میں زیر حراست ہیں؟ جسٹس اعجاز افضل نے حکم لکھوایا کہ کس اتھارٹی اور قانون کے تحت زیر حراست ہیں اور کیا کسی قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جا رہا ہے، ۱۵ دنوں میں رپورٹ دی جائے ۔
عدالت کو بتایا گیا کہ خیرالرحمان کے کیس میں اس کو اٹھانے والے پولیس افسر ارشد کو عدالت نے بری کر دیا ہے، اس فیصلے پر پشاور ہائیکورٹ میں دو ہفتوں میں رپورٹ دائر کی جا رہی ہے ۔ اسی دوران لاپتہ خیر الرحمان کے بزرگ والد عدالت میں ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولنا شروع ہوئے ۔ بزرگ نے کہا کہ لاپتہ کمیشن والے نے بولا کہ تمہارے بچے کے تین سال جیل میں رہ گئے ہیں وہ نکلے گا تو مل جائے گا، پھر کہا کہ پیسے لے جاو اور خاموش ہو جاو ۔ ہم کچھ نہیں بولے گا، اللہ فیصلہ کرے گا، ہم پشاور جیل گئے، جج نے کہا تھا کہ جاو۔ وہاں جیل والے نے کہا کہ جس کا امانت تھا وہ لے گیا، ہم دنیا میں کچھ نہیں بولے گا ۔ اللہ جہنم میں ڈالے گا جو بھی اس کا ساتھی ہے، اللہ ہمارا فیصلہ کرے گا۔ کہتے ہیں معاف کر دو، پیسے لے لو، کیوں لے لوں پیسے؟ کیوں معاف کر دوں؟ یہ پاکستان ہے، اسلام کا ہے ۔
بابا جی یہ سب کہتے ہوئے کمرہ عدالت میں گھومتے پھرتے رہے ۔ کئی افراد نے کوشش کر کے ان کو بٹھانے کی کوشش کی ۔