امریکا نے حسین حقانی پر ’جواب‘ دے دیا
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ میمو گیٹ کے مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقانی کو پاکستان کے حوالے کرنے پر امریکی حکام تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے امریکی حکام کا جواب عدالت عظمی میں جمع کرایا ہے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق سپریم کورٹ میں حسین حقانی میمو گیٹ کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد کیس سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری نہیں ہوئے؟ ۔ ایف آئی اے کے ڈی جی نے کہا کہ انٹر پول کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی ہے، حسین حقانی کو 6 اپریل کو مفرور بھی قرار دیا جاچکا ہے، حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرانے کیلئے کوشاں ہیں، انٹرپول اتھارٹی نے ریڈ وارنٹ کیلئے مزید معلومات مانگی ہیں، انٹرپول کو بتادیا ہے کہ حسین حقانی کے خلاف کیس سیاسی نہیں، حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ کیلئے انٹرپول اتھارٹی سے مسلسل رابطے میں ہیں ۔
عدالت کو بتایا گیا کہ امریکی حکام کو بھی ریڈ وارنٹس سے متعلق آگاہ کیا ہے ۔ ڈی جی بشیر میمن نے بتایا کہ امریکہ نے بھی ایک مجرم حوالے کرنے کی بات کی ہے ۔ امریکہ کا حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ پر جواب ایف آئی اے نے عدالت میں پیش کر دیا ہے ۔
بشیر میمن نے کہا کہ ایف آئی اے نے صرف اینٹی کرپشن کیس کا حوالہ دیا تھا، جواب میں امریکہ نے میمو کمیشن کا ذکر کیا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا امریکی حکومت نے حسین حقانی کو دینے سے انکار کیا؟ امریکہ سے کون پوچھے گا کہ حسین حقانی پاکستان کی سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروا کے آئے تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پاکستان امریکی عدالت کو دھوکہ دینے والوں کو واپس نہیں کرے گا ۔
ڈی جی بشیر میمن نے کہا کہ امریکی حکام کو حقائق سے آگاہ کیا، امریکہ کے لیے شاید 4.1 ملین ڈالر زیادہ کرپشن نہیں ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو سپورٹ حاصل نہیں ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق بشیر میمن نے بتایا کہ انٹر پول میں 5 بھارتی افسران ہیں پاکستانی کوئی بھی نہیں ہے، الطاف حسین کیس میں بھی یہی مشکل آئی ہے ۔
عدالت نے عالمی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی کو طلب کیا اور ان کو حسین حقانی کو واپس لانے کے معاملے میں عدالتی معاون مقرر کیا ۔ مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔