بحریہ ٹاون کیس فیصلہ محفوظ
Reading Time: 4 minutesسپریم کورٹ نے ملک کے بڑے نجی ہاوسنگ پراجیکٹ بحریہ ٹاون کے کراچی، راولپنڈی اور مری کے منصوبوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سات سال بعد سماعت مکمل کر کے الگ الگ فیصلے محفوظ کر لیے ہیں ۔ درخواستوں کی سماعت سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلے لکھنے والے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔
بحریہ ٹاون کے مالک ریاض ٹھیکیدار کی جانب سے وکیل اعتزاز احسن پیش ہوئے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق اعتزاز احسن نے عدالت میں ایک دن تین گھنٹے دلائل دیے جبکہ دوسرے دن سوا گھنٹہ روسٹرم پر کھڑے رہے ۔ انہوں نے دلائل میں کہا کہ راولپنڈی بحریہ ٹاون کیلئے عدالت زمین کی ڈیمارکیشن پر ڈیمارکیشن (نشاندہی) کرا رہی ہے جس سے فرسٹیشن ہو رہی ہے، کوئی بھی ڈیمارکیشن درست نہیں ہو رہی، ایک موقع پر عدالت نے کہا کہ ڈیمارکیشن سے ہمارا تعلق نہیں ۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ درخواست گزار محمد شفیع نے بحریہ ٹاون راولپنڈی کے خلاف جنگلات کی زمین پر قبضہ کرنے کی تحقیقات کیلئے پٹیشن سنہ دو ہزار گیارہ میں دائر کی تھی جس کی پہلی سماعت ۱۳ مئی دو ہزار تیرہ کو ہوئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ جب پنجاب میں پسپائی ہوئی تو ۶ جون دو ہزار بارہ کو بحریہ کے مالک اور ارسلان افتخار آمنے سامنے آئے، اس کے بعد ہی یہ کیس سپریم کورٹ میں چلایا گیا ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق اعتزاز نے کہا کہ یہ درخواست عرصہ قبل سے انسانی حقوق مقدمے کے طور پر زیر التوا تھی اور اس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ تھا ۔ وکیل اعتزاز نے کہا کہ ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے خلاف بھی جنگلات کی زمین پر قابض ہونے کی شکایت تھی مگر صرف بحریہ ٹاون پر مقدمہ بنایا گیا، ڈی ایچ اے سے کسی کو بلایا ہی نہ گیا ۔ عدالت نے اس وقت راولپنڈی کے ڈی سی او اور ضلعی فارسٹ افسر کو طلب کیا تھا ۔
وکیل نے بتایا کہ دونوں افسران عدالت میں پیش ہوئے تھے اور عدالت کو بتایا گیا تھا کہ موضع تخت پڑی اور لوہی بھیر میں بحریہ ٹاون نے تعمیرات کر لی ہیں ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جب زمین ہمارے پاس تھی تو ہم نے تعمیرات کرنا تھیں، کیا ہم زمین کو اسی طرح چھوڑ دیتے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق اعتزاز احسن نے کہا کہ ستمبر دو ہزار پندرہ میں یہ مقدمہ آخری بار سنا گیا اور اس میں ڈی سی کو زمین قبضے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ ڈیڑھ سال بعد چھ اپریل دو ہزار سترہ کو اس کیس کی پھر سماعت ہوئی تو ڈی سی کو ہداہت کی گئی کہ محکمہ مال، سروے آف پاکستان اور محکمہ جنگلات کو زمین کی ڈیمارکیشن کیلئے کہا گیا ۔
وکیل نے کہا کہ اگلے دن سات اپریل کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنرز عدالت میں پیش ہوئے، عدالت کی ہداہت کے بعد کوئی نئی رپورٹ نہیں آئی، اس کے بعد ایک اور رپورٹ آئی، یہ چھٹی رپورٹ تھی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ نے یہ ساری باتیں کر لی ہیں، بار بار دہرا رہے ہیں ۔ اعتزاز احسن جو ساڑھے نو بجے سے روسٹرم پر کھڑے تھے بولے کہ میں ابھی بیٹھ جاوں گا، چھوڑ دوں گا، میں مختلف بات کر رہا ہوں ۔ اب اگر آپ نے کہا تو میں بیٹھ جاوں گا ۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وہی حقائق ہیں جو دہرائے جا رہے ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق اعتزاز احسن پھر جز بز ہوئے اور کہا کہ عاجزی دے کہہ رہا ہوں کہ وہ باتیں کر رہا ہوں جو عدالت کے علم میں نہیں ہیں، تین ستمبر دو ہزار پندرہ کو اس کیس میں درخواست پر حکم جاری کیا گیا تھا اس وقت جواد ایس خواجہ چیف جسٹس تھے ۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالتی حکم پر بحریہ کی زمین کی ڈیمارکیشن کی گئی لیکن اس میں محکمہ مال کو شامل نہ کیا گیا، صرف سروے آف پاکستان اور محکمہ جنگلات نے مل کر علاقے کی نشاندہی کر کے رپورٹ بنائی جو عدالت کے حکم کے مطابق نہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسی لیے اس کیس کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں مگر آپ بار بار وہی دلائل دہرا رہے ہیں ۔ اعتزاز نے کہا کہ میں نے کوئی بات نہیں دہرائی ۔
عدالت میں دن کے ڈیڑھ بج گئے اور دیگر تمام مقدمات کی سماعت بغیر کارروائی کے موخر کر دی گئی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آپ کے دلائل مکمل ہیں؟ اعتزاز احسن نے کہا کہ ابھی نہیں ہوئے مزید بات کرنا چاہتا ہوں، محنت کرتا ہوں، مزدور آدمی ہوں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم سب مزدور ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق اعتزاز نے کہا کہ آپ تو پھر بھی جاہ و جلال کے مالک ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمارا کون سا جاہ و جلال ہے ۔ وکیل اعتزاز نے کہا کہ ہم تو عدالت میں صرف گزارشات ہی کرتے ہیں ۔
عدالت کا وقت ختم ہونے پر ایک اور وکیل نے استدعا کی کہ ان سے کہیں باقی گزارشات تحریری طور پر جمع کرا دیں ۔ وکیل اعتزاز نے فورا کہا کہ نہیں، میں نے اس پر مزید بحث کرنی ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم اس مقدمے کو سات سال سے سن رہے ہیں، اب یہ مکمل ہو رہا ہے تو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
دوسرے دن اعتزاز احسن نے عدالت میں ایک گھنٹہ دلائل دیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون راولپنڈی کی جانب سے محکمہ جنگلات پنجاب کی زمین پر قبضے کا مقدمہ مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ۔
اس کے بعد عدالت نے مری میں بحریہ ٹاون کے قبضوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کا آغاز کیا ۔