مزارات کا چندہ کون کھاتا ہے؟ چیف جسٹس
پاکستان میں سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا ہے کہ مزارات پر عوام کی جانب سے دیا گیا چندہ کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟
منگل کو مقدمے کی سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے تمام صوبوں اور اسلام آباد سے مزارات پر جمع ہونے والے چندے کی فرانزک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ بتایا جائے مزارات پر کتنا چندہ اکٹھا ہوتا ہے اور کہاں خرچ کیا جاتا ہے۔
عدالت نے ملک بھر کے مزارات کے بنک اکاونٹس کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مزارات پر اکٹھا ہونے والا پیسہ دین کے لیے خرچ ہونا چاہیے۔ ”پنجاب میں مزارات کے پیسہ سے اوقاف ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ اوقاف اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے کچھ اور بندوبست کرے، مزارات کے پیسہ تنخواہیں نہیں دی جا سکتیں۔“
پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ چندے سے مزارات کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مزارات سے پیسہ کمایا جا رہا ہے، مزارات کی تزئین و آرائش کہاں ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اوقاف کے ملازمین خیرات کا پیسہ لے رہے ہیں، لوگ منتوں مرادوں کے لیے چندہ خیرات دے کر جاتے ہیں، یہ پیسہ اللہ اور دین کی راہ پر خرچ ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس پیسے ہستپال، تعلیمی ادارے، یتیم خانے بنائے جا سکتے تھے، مزارات کا چندہ اس کام کے لیے ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لوگ ہر چیز کھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ چندہ کے پیسہ سے جہیز فنڈز بھی دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے برجستہ کہا کہ جہیز فنڈز بھی کھا لیا ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریاست مزارات کے چندہ کی محافظ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اوقاف والے مزارات کے پیسے کو من و سلوی سمجھتے ہیں، اوقاف ملازمین کو سمجھ نہیں کہ وہ کیا کھا رہے ہیں؟۔
بعد ازاں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے بعد تک کےچلیے ملتوی کر دی۔