عید کے بعد کورونا کتنا پھیلا ہے؟
Reading Time: 2 minutesخالد عزیز ۔ ایڈیٹر رپورٹنگ، پاکستان 24
قابل احترام کزن ڈاکٹر امین الحق ملنے آئے جنہیں اپنے شعبے میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل ہے دن کا بڑا حصہ وہمارے ساتھ رہے- اس دوران انہیں متعدد فون کالز آئیں جن کے درمیان میں ایک مرتبہ انہوں نے کہا، اللہ کریم رحم کرے ہر جگہ کورونا ھی کورونا ہے۔
ملاقات کے دوران ایک دوست نے انہیں اپنی علامات بتائیں تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں کورونا کا علاج تجویز کیا- اگلے دن کام کے سلسلے میں ایک خاتون کنسلٹینٹ سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے والد صاحب کو بھی کورونا ہوا ہے- ابھی اسی بلڈنگ میں تھا کہ ایک جاننے والے نے فون کرکے کہا کہ ان کے کسی عزیز کو کورونا ہو گیا ہے اور یہ کہ میں انہیں کسی ھسپتال میں بیڈ فراہم کرنے میں مدد کروں-
پمز میں ایک سینئیر عہدے پر تعینات دوست کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود اس مرض کا شکار ھوکر گھر پر آئیسولیٹ ہیں اور صحت یاب ہو رہے ہیں- انہوں نے مزید بتایا کہ عید سے قبل تک ان کے پاس بیشتر آئیسولیشن رومز خالی تھے اور وہ منت کر کے مریضوں کو ھسپتال میں روکنے کی کوشش کرتے جبکہ عید کے بعد یہ صورتحال ھو گئی ھے کہ شدید علامات والے مریضوں کو بھی کمرے نہیں مل رھے- انہوں نے ایک وائرل ویڈیو کا حوالہ دیا جس میں پمز ھسپتال کے اپنے ایک ملازم یہ شکوہ کر رھے ھیں کہ انہیں کہا گیا ھے کہ وہ بازار سے آکسیجن سیلنڈر لے کر گھر میں آئیسولیٹ ھو جائیں- بتایا کہ یہ واقعہ بلکل اصلی ہے اور یہی اصل صورتحال ہے۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ صورتحال کو اس گھمبیر نہج پر لانے کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس؟ حکومت نے جتنا بھی کمزور لاک ڈاؤن کیا تھا، وہ بھی غنیمت تھا، لیکن عید کی شاپنگ کے لیے بازار کھولنے کا حکم دے کر قابل احترام چیف جسٹس نے ایک یقینی خطرے کو دعوت دی کیونکہ جس طرح خلق خدا بازاروں میں امڈ پڑی تھی، اس کے مناظر سب نے دیکھے ہیں- کیا کبھی عدالتی احکامات کا آڈٹ بھی ہو سکے گا؟ کیا کبھی کسی جج کو بھی کسی غلط فیصلے پر سزا ہو سکے گی؟