تاپی گیس منصوبے پر چھ ماہ میں کام شروع کیا جائے: سپریم کورٹ
Reading Time: 4 minutesصنعت کاروں کو 208 ارب روپے معاف کرنے کرنے پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ استحکام کے بغیر تبدیلی انتشار کا باعث بنتی ہے.
اختلافی نوٹ میں میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹ سے معلومات چھپانا بدترین عمل ہے، جی آئی ڈی سی کا معاملہ پارلیمنٹ میں نہ لیکر جانا بری طرز حکمرانی اور آئینی زمہ داریوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کو عیاں کرتا ہے، جی آئی ڈی سی کے معاملے کو اگر بروقت پارلیمنٹ میں لیکر جایا جاتا تو آج نتائج مختلف ہوتے.
رپورٹ: جہانزیب عباسی
جی آئی ڈی سی کیس کے فیصلے کے اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ توانائی، صنعت، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی، زراعت، اور انفراسٹرکچر کے لیے انتہائی ضروری ہے،ہر وہ قوم جس کی معیشت ابھر رہی ہو اور وہ طرز زندگی کو بہتر بنا رہے ہوں وہاں توانائی کی فراہمی بہت ضروری ہے.
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں ابھی بھی قدرتی گیس کی قلت ہے،قدرتی گیس کی قلت اور طلب کے درمیان خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان اکنامک سروے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مقامی قدرتی گیس مجموعی توانائی سپلائی کا 38 فیصد ہے.
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان چار ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس پیدا کر رہا ہے،295 ارب روپے دس سالوں میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے،وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی چھ ماہ میں قانون سازی کرے،اگر وفاقی حکومت چھ ماہ میں قانون سازی نہ کر سکی تو جی آئی ڈی سی مد میں اکٹھے ہوئے فنڈ کو واپس کرے.
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں مزید کہا ہے کہ گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس کی مد میں 295 ارب روپے اکٹھے کیے گئے لیکن گیس پائپ لائن منصوبے کو بنانے کا کوئی نشان نہیں ملا،لگتا ہے حکومت پاکستان گیس پائپ لائن کے ان منصوبوں کو مکمل کرنے ارادہ ہی نہیں رکھتی، لگتا ہے قدرتی گیس کی قلت قطر سے درآمد شدہ ایل این جی سے پوری کی جا رہی ہے،طمقننہ اور انتظامیہ دونوں فنڈز کو استعمال کرنے سے متعلق عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ میں اکثریتی فیصلے سے مکمل اختلاف کرتا ہوں کہ اس معاملے ہر حکومت کا قصور نہیں ہے، کیا حکومت اس ایکٹ کے معاملے کو قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ لے کر گئی؟ حکومت جی آئی ڈی سی کے معاملے پر سالانہ رپورٹ اور پروجیکٹس کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے ناکام رہی، اگر اس معاملے کو بر وقت پارلیمان میں لے جایا جاتا تو آج نتائج مختلف ہوتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں مزید کہا کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا، حکومتی اقدامات کو جانچنا اور پبلک سیکٹر میں حکومتی معاشی سرگرمیوں کا احتساب کرنا شامل ہے، پارلیمنٹ کا یہ کام بھی ہے کہ وہ عوامی مسائل پر بات کرے اور عوام پر خرچ کیے گئے پیسوں کی جانچ پڑتال کرے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹ سے معلومات چھپانا بدترین عمل ہے، حکومت پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے، ایوان زیریں اور ایوان بالا میں وزرائے مملکت کا ذمہ دار ہونا آئینی تقاضہ ہے، حکومت پر سیاسی اور معاشی کنٹرول رکھنا پارلیمنٹ کا کام ہے.
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ اہم معلومات طلب کرنا پارلیمنٹ کا بڑا اختیار ہے،یہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سچائی کے ساتھ مکمل معلومات پارلیمنٹ کو فراہم کرے، یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزرا اسمبلی فلور پر رپورٹس کی بنیاد پر بیانات دیتے ہیں، ایسی اہم معلومات عوام تک پہنچتی ہیں اور اسمبلی فلور پر ان پر بات چیت شروع ہوتی ہے، جی آئی ڈی سی کے معاملے پر دس سالوں میں کوئی چیز پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی گئی.
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سی کا معاملہ پارلیمنٹ میں نہ لے کر جانا بری طرز حکمرانی اور آئینی ذمہ داریوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کو عیاں کرتا ہے، بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ آئین میں ترامیم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، استحکام کے بغیر تبدیلی انتشار کا باعث بنتی ہے، ایک جج کا کام ہے کہ وہ نظام قانون کو انتشار میں ڈالے بغیر معاشرے اور قانون میں توازن پیدا کرے، استحکام کے ساتھ تبدیلی اور تبدیلی کے ساتھ استحکام کو یقینی بنایا جج کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ایک شاہین آسمان پر توازن قائم رکھ کر ہی اڑان بھر سکتا ہے،ملک کی عدالتیں تواتر سے یہ کہہ رہی ہیں کہ آئینی پاکستان ایک زندہ دستاویز ہے.
دوسری جانب جسٹس فیصل عرب نے 47 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ تحریر کیا.
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کا مقصد گیس کی درآمد کیلئے سہولت دینا تھا،جی آئی ڈی سی کے تحت نافذ کی گئی لیوی آئین کے مطابق ہے،عدالت نے حکومت کو سیس بقایاجات وصولی تک مزید سیس عائد کرنے سے روک دیا. اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سال 2020-21 کیلئے گیس قیمت کا تعین کرتے وقت اوگرا سیس کو مدنظر نہیں رکھ سکتا، تمام کمپنیوں سے 31 اگست 2020 تک کی واجب الادا رقم 24 اقساط میں وصول کی جائے.
اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ حکومت کو شمال جنوبی پائپ لائن منصوبہ پر کام چھ ماہ میں شروع کیا جائے، ٹاپی منصوبہ بھی پاکستانی سرحد تک پہنچتے ہی اس پر فوری کام شروع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ چھ ماہ میں پاک ایران گیس پائپ لائن اور ٹاپی گیس پائپ لائن منصوبوں پر کام شروع کیاجائے، منصوبے کا آغاز نہ کیا گیا تو جی آئی ڈی سی ایکٹ غیر موثر ہو جائے گا۔
