’کورونا انسانوں نے بنایا‘، فیس بک نے پالیسی بدل دی
Reading Time: 2 minutesدنیا کے بڑی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک نے کورونا پر کیے جانے والے پروپیگنڈے کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے.
فیس بک اب کورونا وائرس کی شروعات اور اس کے لیبارٹی میں بنائے جانے کے حوالے سے دعوؤں پر مشتمل مواد، تبصرے اور پوسٹیں نہیں ہٹائے گا۔
کورونا کی ابتدا یا شروعات کے بارے میں ازسرنو بحث کے آغاز کے بعد فیس بک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنی ایپس سے اس حوالے سے پوسٹیں اب ڈیلیٹ نہیں کرے گا۔
اپنے بیان میں فیس بک کے ترجمان نے بتایا کہ ‘کووڈ 19 کے آغاز کے مقام کے حوالے سے حالیہ جاری تحقیقات اور پبلک ہیلتھ کے ماہرین سے مشاورت کی روشنی میں ہم اپنی ایپس سے اب ایسے دعوؤں کی پوسٹیں نہیں ہٹائیں گے جن میں کہا گیا ہو کہ کورونا انسانی تخلیق ہے۔‘
فیس بک کی حالیہ پالیسی میں تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے مشیروں کو ہدایت کی ہے کہ وائرس کی شروعات یا ابتدا کے بارے میں جواب تلاش کیا جائے۔
انہوں نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کورونا کی ابتدا کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہیں کہ اور اس میں یہ معاملہ بھی شامل ہے کہ ممکنہ طور پر یہ چین میں کسی لیبارٹری میں حادثے کا نتیجہ ہو۔
فیس بک نے کہا ہے کہ ‘وبا کی بدلتی صورتحال کے مطابق ہم آگے بڑھنے کے لیے ماہرین صحت کے ساتھ مل کر کام جاری رکھتے ہیں اور جیسے جیسے نئے حقائق اور ٹرینڈز سامنے آتے ہیں ہم باقاعدگی سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہیں۔‘
فیس بک نے کہا تھا کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم سے ایک کروڑ 60 لاکھ ایسے آرٹیکلز یا مواد ہٹایا جن میں کورونا یا ویکسین کے بارے میں غلط معلومات پھیلا کر پالیسی کی خلاف ورزی کی گئی۔
رواں سال فروری میں فیس بک نے اس حوالے سے پالیسی کا دائرہ بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسے مواد کو بھی ڈیلیٹ کرے گا جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ کورونا وائرس انسانی تخلیق ہے۔
فیس بک کے ترجمان کے مطابق کمپنی باقاعدگی سے ان دعوؤں کی فہرست اپڈیٹ کرتی رہتی ہے جن کو ماہرین صحت کی ہدایت پر ہٹایا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ کورونا وبا سے دنیا بھر میں اب تک 36 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کورونا کا پہلا کیس سنہ 2019 کے اواخر میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا تھا تاہم اس وائرس کے ابتدا یا آغاز کے مقام کے بارے میں ماہرین کے مختلف دعوے ہیں۔