اہم خبریں پاکستان24 عالمی خبریں

کابل ڈرون حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت پر امریکہ کی معافی

ستمبر 18, 2021 2 min

کابل ڈرون حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت پر امریکہ کی معافی

Reading Time: 2 minutes

امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے تسلیم کیا ہے کہ 29 اگست کو کابل میں ہونے والا امریکی ڈرون حملہ غلطی تھی جس میں 10 عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے میڈیا کو بتایا کہ’ یہ ایک غلطی تھی اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ اب وہ سمجھتے ہیں کہ جس گاڑی پر حملہ ہوا یا جو مارے گئے وہ داعش کے شدت پسند نہیں تھے اور نہ ہی ان سے کابل ایئرپورٹ پر موجود امریکی فوجیوں کو براہ راست کوئی خطرہ تھا۔‘

یاد رہے امریکی حکام نے میزائل حملے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ کابل کے ایک گھر میں پارک کی گئی کار کو نشانہ بنایا گیا جس کے ذریعے داعش کے خودکش حملہ آور ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
قبل ازیں نیویارک ٹائمز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حملوں میں فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکی حکام نے 29 اگست کو رہائشی علاقے میں ڈرون سے میزائل حملہ کیا جس میں ازمرے احمدی نامی شہری اپنے خاندان سمیت نشانہ بنے۔

اخبار کے مطابق ویڈیو شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارا جانے والا ازمرے احمدی داعش کا رکن نہیں بلکہ ایک امدادی کارکن تھا جس نے طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ جانے کے لیے اپلائی کر رکھا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کے ماہرین نے سکیورٹی کیمروں کی فوٹیجز کو سکین کرکے انکشاف کیا تھا کہ ممکن ہے امریکی حکام نے ازمرے احمدی اور ان کے ساتھی کو پانی کی بڑی بوتلیں اور اپنے باس کا لیپ ٹاپ گاڑی میں رکھتے ہوئے دیکھ لیا ہو۔
ڈرون حملے کے بعد امریکی حکام نے کہا تھا کہ اس دوران دوسرا دھماکہ ہوا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا تاہم نیو یارک ٹائمز نے اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں دوسرے دھماکے کے کوئی آثار نہیں ملے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق گھر میں گاڑی کے علاوہ صرف مرکزی دروازے کو معمولی نقصان پہنچا اور کسی بھی دیوار کے گرنے اور دھماکے سے نقصان کے نشان نظر نہیں آئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے دھماکے کی بات درست نہیں۔

ازمرے احمدی الیکٹریکل انجینیئر تھے جو کیلیفورنیا میں قائم ایک امدادی تنظیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے لیے کام کر رہے تھے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے