اہم خبریں متفرق خبریں

نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب، سپریم کورٹ بار کے صدر کی تقریر

ستمبر 12, 2022 3 min

نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب، سپریم کورٹ بار کے صدر کی تقریر

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی 12 ججز کے سامنے تقریر:

آپ کی توجہ ایک بار پھر ایک اہم آئینی و عدالتی معاملے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو کہ اعلی عدلیہ میں تعیناتیوں سے متعلق ہے ۔ ماضی قریب میں عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کے سبب اس وقت عدالت عظمی میں معزز جج صاحبان کی تعداد محض 12 تک محدود ہو چکی ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلاء تنظیموں کی جانب سے عدالت عظمی میں ہونے والی تقرریوں کی بابت قراردادیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ہم آج ایک بار پھر اپنے ماضی کے مطالبات کی روشنی میں گزارش کرتے ہیں کہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران ، معزز جج صاحبان اور وکلا تنظیموں کے مقرر کردہ نمائندوں کی مشاورت سے تعیناتی کے میعار کو Notify کیا جائے تاکہ اس اہم مسئلہ کا احاطہ ایسی بنیاد پر کیا جائے جس سے کسی بھی مکتبہ فکر کو عدلیہ کے ادارے پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے اور تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لئے درست سمت موڑا جا سکے۔اس ضمن میں بہتر ہو گا کہ افہام و تفہیم کے کارگر اصول پر عمل کرتے ہوئے تمام معاملات کا موزوں حل تلاش کیا جائے تاکہ ادارے کے وقار اور تکریم کو برقرار رکھا جا سکے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان اور تمام وکلا برادری، اعلی عدلیہ اور لوئر جوڈیشری کے ججز اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف ہونے والے جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے ان کی کردار کشی کی مذموم کوششوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

اس ملک کے نظا ِم انصاف سے جڑے تمام ججز ہمارے لئے نہ صرف انتہائی محترم و مکرم ہیں بلکہ ملکی سالمیت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ جن کے خلاف کسی قسم کی بھی توہین آمیز گفتگو ناقابل برداشت ہے۔

اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی معزز جج کی کردار کشی قابل تعزیر عمل ہے۔ اس ضمن میں تمام ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرح کی بے بنیاد مہم کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس کے پیچھے کار فرما تمام شر پسند عناصر کے خلاف فوری قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی یہ جرات نہ ہو۔ جج صاحبان کے کئی صادر کردہ فیصلوں سے بسا اوقات ہم سب اختلاف رکھتے ہیں اور تعمیری اختلاف رائے سے ہی اصلاح کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔

یہاں میں اس امر کا کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ آرٹیکل 63-A کے متعلق صدارتی ریفرنس کا فیصلہ وکلاء برادری کی رائے میں آئین کی روح کے منافی ہے جس کے متعلق سپریم کورٹ بار کی نظرثانی کی پٹیشن موجود ہے، جو کہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل قومی مسئلہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس اہم قومی مسئلہ پر جناب چیف جسٹس آف پاکستان فل کورٹ کی تشکیل دیں گے جو کہ انشاء اللہ آئین کی روح کے مطابق آرٹیکل 63-A کی تشریح فرمائیں گے۔

یہاں پر میں جناب جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحریر کردہ اختلافی نوٹ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جو کہ آرٹیکل 63-
‏A سے متعلق ہے؛

گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آرٹیکل 62(1)(F) کی تشریح سے متعلق بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر شدہ ہے جو کہ بعض ناعاقبت اندیش سیاستدان صرف ایک یا دو سیاستدانوں کا مسئلہ گردانتے ہیں جبکہ یہ بھی ایک انتہائی اہم آئینی نوعیت کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں، امید ہے اس کیس کی بھی معزز فل کورٹ سماعت فرمائے گی جس کے متعلق پہلے محترم جسٹس جناب قاضی فائز عیس ٰی صاحب کا نوٹ موجود ہے۔

وکلاء برادری پارلیمنٹ سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ جوڈیشل ریفارمز کے لیے قانون سازی کرے اور آئین میں مناسب ترامیم کر کے نظام انصاف کی بہتری کے لیے کام کرے۔ اور آئین کے آرٹیکل 191 کو مد نظر رکھتے ہوئے، آرٹیکل (3)184 کے تحت کئے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق فراہم کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے جو کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل اور دیگر وکلاء تنظیمیں بارہا قراردادوں کے ذریعے باور کروا چکی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے