منظور پشتین کے چار جُملوں سے ریاست پریشان، حکومت کی وضاحتیں
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے شہر لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقد کی جانے والی کانفرنس میں لگائے نعروں اور اس کے بعد منظر عام پر آنے والے بیانات پر سوشل میڈیا پر بحث میں بڑے سیاست دان تنقید اور طنز کی زد میں ہیں۔
کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین نے بھی تقریر کی تھی جس کے بعد ان کے خلاف لاہور میں اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر پر منظور پشتین نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ظلم و جبر کے خلاف حق کی آوازوں کو مقدمات، جیل یا پروپیگنڈے سے نہیں دبایا جاسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف انصاف دینا ہے۔‘
منظور پشتین کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر پر پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے بھی مذمتی بیان جاری کیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ ’اس ایف آئی آر کا وقت ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ذریعے دیگر افراد کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ریاستی ایجنسیوں کو ان کی زیادتیوں کے لیے جوابدہ ٹھرانے سے باز رہیں۔‘
عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کے بڑے سیاستدانوں بشمول وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی شرکت کی اور تقریر بھی کی۔
ان کی تقریر کے دوران کانفرس کے شرکاء میں سے کچھ لوگوں نے وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے نعرے بھی لگائے جس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ’آپ لوگوں کو جا کر ان کے سامنے احتجاج کرنا چاہیے جن کے پاس علی وزیر کو رہا کرنے کی طاقت ہے۔‘
واقعے کے اگلے روز ہی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان کی وضاحت جاری کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ’میں سمجھتا ہوں جو میں نے ان کا (نعروں کا) جواب دیا وہ بھی نامناسب تھا۔ مجھے ان نعروں کا بہتر انداز میں جواب دینا چاہیے تھا۔‘
سابق صدر آصف علی زرداری بھی لاہور میں لگنے والے نعروں کی مذمت کرتے ہوئے نظر آئے۔ ایک بیان میں پاکستان کے سابق صدر نے کہا کہ کسی بھی پلیٹ فارم کو اداروں کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے اور پاکستان کی بقاء ہمارے اداروں سے ہی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعروں کے وقت اعظم نذیر تارڑ سٹیج پر موجود تھے اور سوشل میڈیا پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکاء کے ایک مختصر گروہ کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ جذباتی نعرہ بازی کرنے والے حکومتی اقدامات اور اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بھی بھول گئے۔ ہم سب ایک مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں۔‘
اعظم نذیر تارڑ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں لیکن ان کے مطابق انہوں نے یہ استعفیٰ ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے منسلک سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر طنز کرتے ہوئے لکھا ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد استعفوں، معافیوں اور وضاحتوں کا سلسلہ جاری۔ ایک صاحب پر تو تقریر کے ذریعے مملکت کا وجود خطرے میں ڈالنے پر پرچہ بھی کٹ چکا۔‘