اہم خبریں متفرق خبریں

کیا فوجی افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے؟

نومبر 4, 2022 2 min

کیا فوجی افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے؟

Reading Time: 2 minutes

فوجی قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ کرنل(ر) انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ حاضر سروس فوجی افسران کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج ہو سکتا ہے اور انہیں دفاع کا حق بھی حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فوجی قواعد کی شق ۳۲۱ پولیس تحقیقات سے متعلق ہے جس کی رو سے پولیس کے دائرہ کار میں آنے والے معاملات میں فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمات کی تفتیش میں پولیس کی ہر ممکن مدد کی جانی چاہئے۔

مقدمات کی تفتیش کے لئے سول پولیس کے اختیارات ضابطہ فوجداری کے باب XIV میں بیان کئے گئے ہیں،سول پولیس کے پاس وسیع اختیارات ہیں جن میں تلاشی اور گرفتاریاں شامل ہیں،فوجی اہلکاروں کو ایسے معاملات میں کوئی خصوصی تحفظات حاصل نہیں ہیں اور ایک کمانڈنگ آفیسر کسی بھی مبینہ ملزم کی گرفتاری یا سول پولیس کی تفتیش میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ ضابطے کی رو سے تمام دفاتر اور اس کے ماتحت تمام مراحل پر سول پولیس کے ساتھ مکمل تعاون یقینی بنائیں گے اور اس سلسلے میں کسی بھی ناکامی پر قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن ۱۶۰ کے تحت تفتیش کار پولیس افسر تحریری حکم نامے سے یا اپنے کسی ملحقہ تھانے کی حدود میں رہنے والے کسی بھی شخص سے حاضری کا تقاضا کر سکتا ہے جو معلومات فراہم کرے یا کیس کے حالات سے واقف ہو۔

ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے کہا کہ لاپتہ تاسف علی کے کیس میں سپریم کورٹ نے فوج کے میجر کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ تاسف علی کو ایک میجر نے جعلی نام استعمال کرتے ہوئے اغوا کیا تھا،جب اس کا اصل نام معلوم ہوا تو عدالت عظمی نے کارروائی کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایئرفورس کے ایک افسر گروپ کیپٹن رضوان کے معاملے میں بھی فوجی افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کی نگاہ میں سب شہری برابر ہیں،تمام شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق ہونا چاہئے اور اسی سے قانون کی حکمرانی کا تصور مضبوط ہو گا،لیکن یاد رہے کہ جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر کٹوانے پر پولیس تعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے