اہم خبریں

سپریم کورٹ کا حکمِ امتناع، آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کو کام سے رُوک دیا

مئی 26, 2023 4 min

سپریم کورٹ کا حکمِ امتناع، آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کو کام سے رُوک دیا

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نےآڈیو لیکس کے جوڈیشل انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کا حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس کے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو عدلیہ کے اختیارات میں وفاقی حکومت کی مداخلت قرار دیا ہے.

رپورٹ: جہانزیب عباسی

جمعے کو مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل عثمان منصور نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اُٹھایا ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئےاور چیف جسٹس پر اعتراض کیا.

سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیو انکوائری کمیشن کیخلاف کیس پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں لگتا ہے 9 مئی کے واقعات کا ہمیں فائدہ ہوا ہے، 9مئی کے واقعات کے بعد عدلیہ کیخلاف بیان بازی کا سلسلہ تھم گیا ہے.

دوران سماعت جب جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے فون ٹیپنگ کو غیر آئینی قرار دیا. اس پر اٹارنی جنرل نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا مائی لارڈ حادثاتی طور پر وہ اقلیتی رائے تھی.

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن کا دوسرا اجلاس کل ہفتہ کے دن دس بجے ہونا تھا.

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھی انکوائری کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن انکے وکیل بابر اعوان کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے.

سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس پاکستان پر اعتراض اٹھاتے ہوئے بولے بہت ادب سے استدعا ہے کہ لارجر بنچ یہ کیس نہ سنے.

چیف جسٹس نے کہا اعتراض کرنا آپ کا حق ہے،ہمیں لگتا ہے نو مئی واقعات کے بعد ہمیں فائدہ ہوا،9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی،آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں ،ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں،عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کہ قانون سازی جلدی میں کی،حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ،آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا،حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی،ہم نے سوال پوچھا کہ 184 بی میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو،اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے.

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے،انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے،حکومت تاثر دے رہی ہے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے،حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے،جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں.

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کسی جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا. شعیب شاہین نے جواب دیاآرٹیکل 209کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے،جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا.

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے،آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے،اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے.

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی خوشدامن کا نام لیے بغیر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی توجہ جوڈیشل کمیشن نوٹیفکیشن کی شق چھ کی طرف دلوانا چاہتا ہوں،میری ادب کے ساتھ گذارش ہے آپ اس بنچ میں نہ بیٹھیں.

ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے دلائل میں مزید کہا کہ ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مبینہ آڈیو آتی ہے پھر پورا میڈیا اسے چلاتا ہے،مبینہ آڈیوز پر وفاقی وزراء پریس کانفرنسز کرتے ہیں،مبینہ آڈیوز کی بنیاد پر میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے،جان بوجھ کر عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا گیا،اگر اسی طرح خاموشی رہی تو ریاستی ادارے تباہ ہو جائیں گے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خود انکوائری کمشین سننے سے انکار کر دینا چاہیے،شاہد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مبینہ آڈیوز کی ریکارڈنگ کرنے والوں کا اس لیے نہیں پوچھا کہ وہ ٹی او آرز سے باہر نہیں جا سکتے تھے،انکوائری کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس جاری کیا لیکن یہ پوچھا گیا ریکارڈنگ کس نے کی.

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں انکوائری کمیشن کیسے کارروائی چلا سکتا ہے،وفاقی حکومت نے لفظوں کے ہیر پھیر کے زریعے جوڈیشل کونسل کے اختیارات میں مداخلت کی کوشش کی،حکومت نے اختیارات کی تکون کے ڈھانچے کو متاثر کرنے کی کوشش کی،احترام کیساتھ کہنا چاہتا ہوں حکومت حاضر سروس ججزکے خلاف ایسا کیسے کر سکتی ہے،ججز کے کنڈکٹ کا تعین انکوائری کمیشن کے زریعے کیسے کیا جا سکتا ہے.

چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے حکومت نے سب کچھ پھر سے جلدی بازی میں کر دیا گیا. جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک سینئر جج کو یہ ٹاسک سونپ دیا گیا کہ ججز کے کنڈکٹ کا جائزہ لے. اٹارنی جنرل نے کہا انکوائری کمیشن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی نہیں ہوسکتی،سپریم جوڈیشل کونسل کا آزاد فورم ہے.

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر حکومت نے اختیارات کی تقسیم کے آئینی ڈھانچے کو متاثر کیا گیا،جب ٹی وی چینلز مبینہ آڈیوز چلاتا رہا تو پیمرا کیا کر رہا تھا،کابینہ کے وزراء مبینہ آڈیوز پر پریس کانفرنسز کرتے رہے. اٹارنی جنرل نے کہا آج کیس کی پہلی سماعت ہے،میں اختیارات کی تقسیم کی دلیل پر دلائل دونگا.

دوران سماعت ایک موقع پر جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فون ٹیپنگ کو غیر آئینی قرار دیا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے فون ٹیپنگ کرنے کو غیر آئینی قرار دیا گیا. اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیاحادثاتی طور پر وہ اقلیتی رائے تھی،انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار اتنے وسیع ہیں کہ یہ جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ مبینہ آڈیوز قانون کے مطابق ہیں یا نہیں.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل آرٹیکل 209 اور عدلیہ کے اختیارات کے متصادم ہے،جو کام تحقیقاتی ایجنسیوں کے کرنے کا تھا وہ ایک جج کو سونپ دیا گیا. اٹارنی جنرل نے کہا کسی ایجنسی کو معاملہ سونپے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی خودمختاری سے متعلق 33سالوں میں مسلسل عدالتی فیصلے دیے گئے،ہم ان فیصلوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے،ہمارے پاس اخلاقی اتھارٹی ہے،ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے،ہم جو بھی کرتے ہیں سرعام کرتے ہیں. بعدازاں عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے قرار دیا ہم عدالتی کارروائی کا مختصر تحریری حکمنامہ جاری کریں گے.

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے