اہم خبریں متفرق خبریں

فوجی عدالتوں کا مقدمہ، جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بول رہے تھے تو کس جج کے کیا تاثرات رہے؟

جون 22, 2023 5 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

فوجی عدالتوں کا مقدمہ، جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بول رہے تھے تو کس جج کے کیا تاثرات رہے؟

Reading Time: 5 minutes

فوج عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران نو رکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

نو رُکنی لارجر بینچ نے کُل 25 منٹ سماعت کی۔ اس دوران تقریبا 20 منٹ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی بولتے رہے۔
انہوں نے گزشتہ تین ماہ کے دوران عدالت میں اہم مقدمات میں بینچز کی تشکیل اور خود کو الگ رکھے جانے کے علاوہ چیف جسٹس کے کنڈکٹ پر گفتگو کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنا مؤقف تفصیلی طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اُن کے لکھے گئے نوٹ بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیے جاتے ہیں اس لیے سب سے مناسب فورم کھلی عدالت ہے جہاں وہ اپنی بات سب کے سامنے کر رہے ہیں تاکہ لوگوں تک غلط رپورٹنگ کے ذریعے گمراہ کُن معلومات کے بجائے اصل رُخ اور حقائق پہنچیں۔

جسٹس طارق مسعود نے چند جُملے کہے جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آخر میں درخواست گزار وکلا کو خاموش کرانے کے لیے دو جُملے بولے۔

جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بات کر رہے تھے تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر کھڑے تھے۔ لطیف کھوسہ ایک طرف ہٹ گئے تھے جبکہ اعتزاز احسن آخر میں روسٹرم پر سامنے آئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سینیئر ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس کے دائیں جانب والی کُرسی پر بیٹھے تھے جبکہ جسٹس طارق مسعود چیف جسٹس کے بائیں طرف پہلی کُرسی پر تھے۔

چیف جسٹس پہلے کرسی سے ٹیک لگائے سُنتے رہے اور آخر میں آگے کو جھک کو سر کو ہلاتے دیکھے گئے، ایک وقت اُن کے چہرے پر مسکراہٹ بھی دیکھی گئی۔

تمام جونیئر ججز اس انتظار میں تھے کہ کب جسٹس قاضی فائز اپنی بات ختم کریں گے۔

جسٹس عائشہ ملک سب سے بائیں جانب اور جسٹس مظاہر نقوی سب سے آخری نشست پر دائیں جانب بینچ میں بیٹھے تھے۔

جسٹس منیب اختر خاموش بیٹھے تاثرات سے عاری نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جسٹس عائشہ ملک مسکراتی دکھائی دینے کی کوشش میں تھیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن دائیں ہاتھ کا مکا بنائے گال پر ٹکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی اپنی نشستوں پر زیادہ ریلیکس دکھائی دے رہے تھے۔

سماعت ختم ہونے سے قبل ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور آخری تین منٹ اسی طرح گزرے جبکہ دیگر ججز بیٹھے رہے۔

عام طور پر تمام ججز ایک ساتھ نشستوں سے اُٹھتے ہیں۔

قبل ازیں‌جمعرات کی دوپہر جب مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل روسٹرم پر آ ئے۔

چیف جسٹس نے اُن کے وکیل سے کہا کہ پہلے دوسرے درخواست گزار کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کو آگے أنے دیں وہ سینیئر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اُن کو حیرت ہو رہی تھی کیونکہ لطیف کھوسہ سینیئر وکیل ہیں۔
لطیف کھوسہ نے روسٹرم پر آتے ہی چیف جسٹس سے انگریزی میں اپنی خوشی کا اظہار کرنے کی کوشش کی تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ٹھہریں پہلے اٹارنی جنرل کو سامنے آنے دیں اُن سے بات کرنی ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے خوشی کا اظہار تو کرنے دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ سیاسی فورم نہیں خوشی کا اظہار باہر جا کر کریں مجھے بات کرنے دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر ائیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے.

جسٹس فائز عیسی کے مطابق صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کروں گا.

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو بینچ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی. جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اُن کو تعجب ہوا کہ گزشتہ شام آٹھ بجے بینچ میں اُن کا نام آیا اور پھر چار درخواستوں کا پتا چلا۔

اُن کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف سے آخری درخواست سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے دائر کی اُس کو کاز لسٹ میں پہلا نمبر دیا گیا جبکہ جو درخواست عمران خان نے ایک ماہ قبل دائر کی گئی تھی اُس کو آخری نمبر دیا گیا ہے۔

انہوں نےکہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا تھا.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بنچ میں بیٹھوں یا پھر میں نے حالات کو دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا، جب مجھ سے چیمبر ورک کے بارے میں پوچھا گیا تو پانچ صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ چیمبر ورک کی وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے اس لیے کھلی عدالت میں بات کرتا ہوں، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا.

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس چھ ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی بنچ نے روک دیا تھا.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مطابق کیونکہ فیصلہ نہیں ہوا اس لئے اس قانون پر رائے نہیں دوں گا، ہماری عدالت کے ایک فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ اس پر 8 اپریل کو میں نے نوٹ لکھا جو ویب سائیٹ پر لگا پھر ہٹا دیا گیا، اس سے پہلے ایک 3 رکنی بینچ جس کی صدرات میں کررہا تھا 5 مارچ کو کررہا تھا.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ 5 مارچ والے فیصلے 31 مارچ کو ایک سرکولر کے زریعے فیصلے کو ختم کردیا جاتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میرے چیمبر ورک کرنے کا جواب چیف جسٹس بہتر دے سکتےہیں.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ یہ میں نے اپنے نوٹ میں لکھا، میں اپنا نوٹ اپنے معزز ججز سے شیئر کرتا ہوں، اس دوران حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا جس کا مجھ سربراہ بنایا گیا، پھر اس کمیشن کو عدالت نے کام کرنے سے روک دیا.

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں اس وقت تک کسی بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ میں معذرت چاھتا ہوں، ججز کو زحمت دی۔

جسٹس قاقی فائز عیسی نے کہا کہ میں اس بینچ سے اٹھ ریا ہوں لیکن سماعت سے انکار نہیں کر رہا۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ وہ قاضی فائز عیسی کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ پہلے بینچ بنانے والے قانون پر فیصلہ آنا چاہیے۔ پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں اتا ہے تواس کیس اپیل آٹھ جج کیسے سنیں گے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ جب 25 کروڑ آئیں گے دیکھیں گے۔ سنہ 1952 سے لے کر اب تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے، 73 کے آئین کو بھی سبوتاژ کیا گیا تھا، پہلے بھی فوجی عدالتیں بنی ہیں نئی بات ہے اور نہ پہلی بار ہو رہا ہے۔

جسٹس طارق مسعود نے وکیل سے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت کیوں رجوع کیا، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت بھی عدالت آ سکتے تھے کیوں نہ گئے؟

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک گھر کے اندر کشمکش ہوتی ہے اُس کو گھر کے اندر ہی حل کرنا چاہیے۔ آپ کے گھر پر باہر سے حملہ ہوا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے بات نہ کریں، یہ کوئی گھر نہیں، آئین کی بات کریں آپ وکیل ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے