تین ججوں کے مقابلے میں چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ
Reading Time: 2 minutesچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں بہت سے سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصاویر لگی ہیں، ان میں سے ایسے بھی تھے جو مارشل لا کے نفاذ پر اپنا حلف بھول گئے تھے۔
منگل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خاتمے کے لیے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جائیں تو وکلاء سپریم کورٹ کے عوامی مفاد کے آرٹیکل 184 تین کے دریغ استعمال پر بہت تنقید کرتے رہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے184 تین کے استعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔
انہوں نے وکیل حسن عرفان سے پوچھا کہ آپ کے بطورشہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثر ہوئے؟ فیصلے پر نظرثانی میں ایک فریق کو اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی۔
وکیل نے بتایا کہ اس سے قانون کی رسائی کا حق متاثرہوگا کل کوسماجی ومعاشی اثرات مرتب ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت نے کئی بارمارشل لاء کی توثیق کی ہے، اس کے خلاف کتنی بار لوگ آئے؟ اگرپارلیمنٹ کہتی ہے کہ مارشل لاء کی توثیق غلط ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ انصاف تک رسائی کے حق کوپارلیمنٹ کیوں نہیں بدل سکتی؟
چیف محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ توہین عدالت کے فیصلے کے خلاف بھی کیا آئین کےآرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں ہونا چاہیے تھا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ اپیل کا حق دینے کا اختیارکس کا ہے، جب آئین نے آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق نہیں دیا تویہ آئینی منشا نہیں تھی، اگر یہ منشا اب ہے کہ آرٹیکل 184تین میں اپیل کا حق دیا جائے تواس کا واحد حل آئینی ترمیم کے ذریعے ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو پارلیمنٹ ایک قانون کے ذریعے ایک کے بجائے چار اپیلوں کا حق دے دے۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا اسے نظرانداز نہیں کر سکتے، پارلیمان کی عزت کرنی چاہیے، فرد واحد نے اس ملک کی تباہی کی ہے۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ فرد واحد کرے تو ٹھیک، پارلیمان کرے تو وہ گناہ ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کوآئین میں ترمیم کی اجازت دی تھی۔ کیا آپ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟
وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلے سے متفق نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پارلیمان نے اچھا قانون نہیں بنایا کہ ہم اس فیصلے کوواپس لے سکیں؟ ججزنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت دی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کہتی تھی کسی ڈاکٹرائن کی وجہ سے مقدمات مقررنہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ڈاکٹرائن آئین اور قانون کے مطابق تھی؟ آپ کہتے ہیں بس فرد واحد کا اختیارکم نہ ہو، مارشل لاء لگتا ہے تو ملک فرد واحد ہی چلاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپس میں تین لوگ فیصلہ کریں یا پانچ کریں آپ کو (درخواست گزاروں) کیا مسئلہ ہے؟ پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔
تین ججوں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کے مقابلے میں چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ وکلا کو مخاطب کر کے اپنی بات کر رہے ہیں۔