کس قانون میں دَم کرانے کا لکھا ہے؟ سپریم کورٹ میں توہین مذہب کا مقدمہ
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم سائیں زبیر صابری کی ضمانت منظور کر لی ہے۔
منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے سماعت کے بعد 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضامنت منظور کی۔
عدالت نے حکم دیا کہ توہین مذہب کے اس کیس کی مزید انکوائری کی جائے، قانون ہے کہ توہین مذہب کے حساس معاملات کی نگرانی اور تفتیش ایس پی رینک سے کم کا افسر نہیں کرے گا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایس ایس پی اور ایس پی اسلام آباد پولیس عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین مذہب کے کیس کی تفتیش ایس پی نے خود کرنا ہوتی ہے، قانون کی خلاف ورزی پر ایس پی کو معطل کریں یا ایس ایس پی کو؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم کے وکیل کے مطابق پولیس توہین مذہب کے کیسز میں ڈرتی ہے اور جیسے ہی کیس آتا ہے مقدمہ درج کر لیتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس ڈرپوک ہونے لگی تو بہادر کون رہے گا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے افسران سے پوچھا کہ بغیر وارنٹ کیا پولیس کسی کے گھر میں داخل ہو سکتی ہے؟ چادر اور چار دیواری کا تقدس کہاں گیا؟
چیف جسٹس نے پولیس افسر سے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر کوئی بغیر وارنٹ جا کر تلاشی لے سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس آرڈر 2002 کے مطابق بغیر وارنٹ گرفتاری کسی کے گھر داخل ہونے پر پولیس اہلکار کے لیے پانچ سال کی سزا بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک تصویر کی بنیاد پر توہین مذہب کا کیس بنا دیا جیسے آپ ہی اسلام کے محافظ ہیں۔ پہلے توہین مذہب کا کیس بنا، گرفتاری ہوئی پھر جا کر تصویر برآمد کرائی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پولیس نے یہ ثابت کرنا ہے کہ توہین مذہب عام ہے اور اس سے اسلام بلند ہو گا؟ ایک شخص اپنے دوست کو دم کرانے گیا وہاں تصویر دیکھی اور آکر مقدمہ بنا دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس بندوقیں رکھ کر بھی ڈرپوک ہے، ہم اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں۔
شکایت کنندہ نے عدالت کے بلانے پر بتایا کہ میں پیر کے پاس دوست کے ساتھ دم کرانے گیا جہاں توہین آمیز تصویر آویزاں تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ کیا قرآن میں پیر کا ذکر ہے؟
شکایت کنندہ نے بتایا کہ قرآن میں پیر کا نہیں رہبر کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے شکایت کنندہ سے ہو چھا کہ پیر کا ذکر ہے؟ اب کیا اللہ سے بھی نوک جھونک کرو گے؟
شکایت کنندہ نے بتایا کہ وہ تو پیر کو نہیں مانتا صرف دوست کو دم کرانے گیا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر آپ پیر کو نہیں مانتے تو دوست کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ پیر کتنے عرصے سے گرفتار ہے؟
سرکاری وکیل نے بتایا کہ پیر زبیر صابری 7 ماہ سے گرفتار ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پیر کا دم اپنے کام نہیں آ رہا جو سات ماہ سے جیل میں ہے؟
چیف جسٹس نے پولیس افسران اور سرکاری وکیل سے کہا کہ یقینی بنائیں کہ مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو، توہین مذہب کے کیسز کو سنجیدگی سے لیں۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایس پی اسلام آباد پولیس رخسار مہدی کو فوری طلب کیا۔
طلبی توہین مذہب کیس میں زبیر صابری کے گھر بنا وارنٹ گرفتاری کرنے پر کی گٸی۔
چیف جسٹس پاکستان کا قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوٸی گھر محفوظ نہیں،
بنا وارنٹ پولیس لوگوں کے گھروں کا تقدس کیسے پامال کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس پاکستان
قتل ، ڈکیتی کا پرچہ تو پولیس فوری درج نہیں کرتی۔ کیا پولیس شکایت کنندہ کی جیب میں ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری اور آپ کی تنخواہ عوام دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر کے خلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایسے مقدمات تو سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہییں۔آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل ! ہمیں لا افسران سے معاونت نہیں مل رہی، لا افسران مدعی کے وکیل بن جاتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ قانون کہہ رہا ہے توہین مذیب کیس کی تحقیقات ایس پی کرے گا، قانون کے ہوتے ہوئے ماتحت کیسے تحقیقات کرسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے مدعی کی جانب سے پیر صاحب، پیر صاحب لفظ استعمال کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ اور پوچھا کہ کیا یہ نام قانون میں درج ہے؟ کس قانون میں دم کرنے کا لکھا ہوا ہے؟
ایک موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے مدعی اور وکیل سے کہا کہ آپ کا تو ایمان ہی مضبوط نہیں؟