اہم خبریں کالم

مطیع اللہ جان: ’اپنے بھی خفا مُجھ سے بیگانے بھی ناخوش‘

اپریل 6, 2024 3 min

مطیع اللہ جان: ’اپنے بھی خفا مُجھ سے بیگانے بھی ناخوش‘

Reading Time: 3 minutes

فرحان خان. اسلام آباد
‏مطیع اللہ جان عجیب شخص ہے۔ دستیاب کارپوریٹ میڈیا میں ایسے شخص کی گنجائش کہاں بنتی ہے۔ وہ بیش تر حالات میں اپنی شرائط پر صحافت بلکہ زندگی کرنے کا عادی ہے۔

سرکاری پریس ریلیزوں کی واٹس ایپ گروپس میں ترسیل اور وائرل کلپس بنانے کو کُل صحافت سمجھنے والی مخلوق مطیع اللہ جان کے اندازِ صحافت کو کیونکر پسند کر سکتی ہے!

‏دوسرا، اگر مُشکل لمحے میں کسی سیاست کار یا عہدے دار نے مطیع سے خیرسگالی کی غرض سے ملاقات کی ہے تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ’تاعمر ممنونِ احسان‘ہو کر آئندہ کبھی اس شخص سے مطیع اللہ جان سوال نہیں کرے گا۔ سوال کا موقع ہوا تو وہ ضرور پوچھے گا۔ اگر وہ اس موقعے پر زبان لیپٹ کر اپنے حلق میں اتار لے گا تو اپنے ضمیر کی عدالت میں وہ کیا جواب دے گا۔

‏وہ جانتا ہے کہ سوال ہی صحافی کی ساکھ اور اس کے وجود کا جواز ہے۔ سوال کا قتل یا اس پر سمجھوتا صحافت کی موت ہے۔
‏اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری کارندوں کی ترجمانی کے لیے لمبی خوشامدی زبانوں والے صحافی نما رضاکاروں کے ریوڑ کی موجودگی میں جب کبھی مطیع اللہ جان کا سوال گُونجتا ہے تو مسئول سے پہلے اردگرد کھڑے رضاکار ترجمانوں کے چہروں کے رنگ اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ آپس زیرِلب بڑبڑانے لگتے ہیں کہ ’یہ پاگل ہے۔ اس نے تو ہمارا کام بھی خراب کر دینا ہے۔‘

‏وہ تحریکِ انصاف کے دور میں وزیروں سے سوال پوچھتا تو ناقدین اسے ن لیگ کا ایجنٹ اور پٹواری کہہ کر مطعون کرتے ہیں۔

جب مسلم لیگ ن کے دور میں وہ مسند نشینوں پر سوال اٹھاتا ہے تو لیگی ٹرولز کی جانب سے اسے ڈالرز کا بھوکا اور یوتھیا جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس پر مالی بدعنوانی جیسے الزامات تک عائد کر دیے جاتے ہیں۔
‏میں نے دیکھا ہے کہ مطیع اللہ جان اپنی ذات پر اچھالے گئے سوشل میڈیائی کیچڑ کی پروا کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔

‏کئی انٹرویوز میں جب سامنے والا زِچ ہو کر اس پر ذاتی نوعیت کے حملے اور فقرے کسنے لگتا ہے تو وہ مسکرا کر دوبارہ اپنا سوال دہراتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ صحافت کی آبرو سوال کی بقاء میں ہے اور سوال کے حدت سے بچنے کے لیے اگلے نے ذاتی حملے کا سہارا لیا ہے۔

جب تحریکِ انصاف کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا اور اور مقتدرہ نے ٹی وی میڈیا کو ان کے خلاف کُھلا چھوڑ دیا گیا تو مطیع اللہ جان ہی تھا جس نے اس پلاٹ کے بڑے کرداروں کو عدالت کی راہداریوں میں روک روک کر سوال کیے۔

مجھے یاد ہے کہ اس وقت کی باجوائی مقتدرہ کے حلیفوں کے ہاں وہ بُرا آدمی ٹھہرا تھا اور اب جب اس نے الیکشن 2024 سے قبل اور بعد کے کچھ عدالتی فیصلوں پر سوال اٹھائے تو نئی مقتدرہ کے تازہ لیکن ’کاریگر قسم کے‘ حلیفوں نے مطیع اللہ جان کو سینگوں پر رکھ لیا ہے۔
‏وہ کیا شعر تھا:
‏اپنے بھی خفا مُجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
‏میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

‏میں قطعی یہ نہیں کہہ رہا کہ مطیع اللہ جان کے تجزیوں میں کبھی جھول نہیں آ سکتا، اس کے لفظوں کا انتخاب ہمیشہ ہی بہت اعلیٰ ہوتا ہے یا اس کی انفارمیشن میں کبھی کوئی کمزوری نہیں آ سکتی۔ یہ بھی میرا اصرار نہیں کہ وہ کبھی جذباتی نہیں ہوتا۔

ایک انسان کبھی بھی ہر اعتبار سے پرفیکٹ نہیں ہو سکتا لیکن فوراً ہی کسی کی نیت پر شک کرنا زیادتی ہے۔ کچھ مارجن تو انسان ایک دوسرے کو دے ہی دیتے ہیں۔

کسی پیشہ وارانہ ساکھ پر سوال اٹھانے کے لیے بہت مضبوط اور ناقابلِ تردید ثبوت ہونا لازم ہیں۔ جب اپنے ناپسندیدہ شخص کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کے لیے کچھ نہ ملے تو ویڈیوز اور تصاویر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

یہ بھی نیا طریقہ ہے کہ کسی شخص پر سوشل میڈیائی ریوڑ کی شکل میں حملہ کرو اور اتنا جھوٹ پھیلاؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ سیاسی اور سرکاری دیوتاؤں کے پُجاری اور خوشامدیے اپنے دیوتاؤں کے بدلتے بیانیوں کے ساتھ خودکار طریقے سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک باوقار اور اُصول پسند شخص اپنی سوچ اور فکر کو اتنا زیادہ لچک دار تو نہیں بنا سکتا۔ وہ ہواؤں کے رُخ دیکھ کر اپنے قبلے بدلنے والوں سے الگ راہ اختیار کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ گداگرانِ بخشیش والتفات سے مختلف اور ممتاز نظر آتا ہے۔
‏بلاشبہ یہ مُشکل راہ ہے اور اس راہ پر جادہ پیمائی کی ایک قیمت ہے۔

مطیع اللہ جان کے سامنے بھی کسی ایک سیاسی جماعت، کسی بزنس ٹائیکون یا مستقل بالادست قوتوں کی لائن لے کر چلنے کی آپشن تو موجود ہو گی ہی لیکن اس نے پورے شعور کے ساتھ دوسری راہ کا انتخاب کیا ہے۔

اس راہ میں کھٹنائیاں بہت ہیں لیکن مطیع اللہ جان کا شوقِ سفر آبلہ پائی کی پروا کیے بغیر جاری ہے۔
‏مطیع اللہ جان کے لیے نیک تمنائیں!

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے