اہم خبریں متفرق خبریں

پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ابراہیم خان کیسے جج تھے؟

اپریل 15, 2024 2 min

پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ابراہیم خان کیسے جج تھے؟

Reading Time: 2 minutes

عماد خلیل ایڈووکیٹ . پشاور

پشاور ہائی کورٹ چیف جسٹس ابراہیم خان ریٹائرڈ ہو گئے۔
میں نے ابراہیم خان صاحب کو جب بھی سنا، کوئی کیس کیا یا ان کی عدالت میں کسی دوسرے وکیل کا کیس دیکھا تو ان کو ہمیشہ ایک اوسط درجے کاجج پایا۔

چیف صاحب ڈسٹرکٹ جوڈیشری سے آئے تھے، اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں ایک کلچر ہے معمول کے مطابق فیصلے کرنا یعنی strict routine۔ جسٹس ابراہیم خان کی ہائی کورٹ عدالت میں بھی ہمیشہ آپ کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی ٹرائل کورٹ میں آپ بیٹے ہو۔ بہت Procedural judge تھے، ایک فیصد بھی jurisprutential نہیں تھے۔

ڈسٹرکٹ جوڈیشری ہمیشہ Procedural appraoch پر زیادہ زور دیتی ہے جبکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ زیادہ تر Jurisprudencial mode پر کام کرتی ہے۔ لیکن ابراہیم خان کی approach ہائی کورٹ میں بھی سخت Procedural تھی۔

اس کے علاوہ میں نے ان میں دو باتیں نوٹ کی، ان کو اگر ان کا Signature کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

1- جب بھی ان کے پاس کوئی کرمینل اپیل کا کیس لگتا، ( کریمنل اپیل عام حالات میں سالوں لگنے کے بعد ہائی کورٹ میں فیکس ہوتا ہے) تو بجائے اس کے ابراہیم خان اپیل سن کر اس پر فیصلہ دیتے، وہ تین طرح کے آرڈر کرتے۔

1- اس کیس میں تو دفعات صحیح نہیں لگے، انویٹیشن افسر کو حکم کیا جاتا ہے قانونی دفعات ٹھیک کر کے لگائے۔
2- اس کیس میں تو چارج ٹھیک سے نہیں لگا، اس Framing of Charge Certificate پر دستخط ٹھیک نہیں۔ یہ دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بیجا جاتا ہے تاکہ چارج ٹھیک لگے۔
3- ضمانت/Bail کا کیس بھی واپس کرتے اس FIR میں دفعات غلط ہے ان کو ٹھیک کیا جائے۔

ایسے آرڈر میں سب سے بڑا مسئلہ پتہ ہے کیا ہے؟ ایک کیس جو برسوں قبل درج ہوا، پھر سالوں بعد ٹرائل کورٹ میں تاریخ در تاریخ کے بعد تمام گواہوں اور ثبوت کے بعد فیصلہ ہو اور سالوں بعد ہائی کورٹ میں اپیل کے بعد فکس ہو اور اوپر سے ابراہیم خان واپس کر دے صرف اس وجہ سے کے اس کیس میں ایک دستخط غلط ہے، یا پولیس والوں نے دفعات غلط لگائی ہے۔ اکثر کیس میں تو گواہوں کو بھی مرے سال ہوئے ہوتے لیکن پورے کا پورا کیس واپس بیج دیا جاتا.

جج صاحب کا دوسرا بڑا Signature فیملی لا تھا۔

میاں بیوی کا کوئی بھی کیس آتا، جج صاحب یہ بھول جاتے کہ وہ جج ہے اور فیملی قانوں کے مطابق فیصلہ کریں، وہ اپنی عدالت میں ہی میاں بیوی کا جرگہ کرنے لگ جاتے۔ فیملی کیس کے وقت ان کی کورٹ عدالت کم اور کوئی arbitration یا Facilitation centre زیادہ لگتی۔

اپنے آخری بیان میں بھی بڑے فخر سے کہا "اپنے عدالتی کیریئر میں ہزاروں میاں بیویوں کے گھر سنوارے۔

ابھی آخری دو برسوں میں اور خاص کر چیف جسٹس بننے کے بعد سیاسی خبروں میں کافی رہے۔
کوئی ان کو پی ٹی آئی کا جج کہتا تو کوئی انصاف کے ساتھ کھڑا ہونے والا ایک بہادر جج۔

میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، جو بھی اس سے جیسا مطلب لینا چاہے یہ ان کی مرضی ہے۔

فیئر ویل ٹو جسٹس ابراہیم خان

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے