اہم خبریں متفرق خبریں

چکوال میں کون سا مشہور شخص بیٹھا ہوا ہے: چیف جسٹس

مئی 13, 2024 3 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

چکوال میں کون سا مشہور شخص بیٹھا ہوا ہے: چیف جسٹس

Reading Time: 3 minutes

صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سابق جرنیل فیض حمید کا نام لیے بغیر اُن کو مشہور شخص قرار دیا ہے۔

پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔

سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی 2022 میں دائر کی گئی تھی۔

چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال،ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے۔

چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے آپکے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے۔ کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟

ایک درخواست گزار ایم آصف نے عدالت میں بیان دیا کہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں۔

وکیل رفاقت حسین شاہ نے بتایا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے زریعے درخواست دائر ہوئی ان کا انتقال ہو چکا ہے۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وکیل سے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔

چیف جسٹس کے مطابق وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جانچ کے لیے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوا دیتے ہیں۔

ایڈووکیٹ حیدر وحید نے کہا کہ مجھے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے طنزیہ کہا کہ بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکی جاؤ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھ سے پہلے ایک زمانہ تھا جب ایسی درخواستیں دائر کی جاتیں تھیں، اب وہ زمانہ چلا گیا، ایسی بوگس درخواستیں دائر کرنے والوں کو نتائج بھگتنے پڑیں گے،

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب مٹی پاؤ پالیسی نہیں چلے گی، سپریم کورٹ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا تھا اب ایسا نہیں چلے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ 27 سال بطور وکیل پریکٹس کی کبھی ایسے شخص کیلئے پیش نہیں ہوا جسے ذاتی طور پر دیکھا نہ ہو۔

ابصار عالم نے عدالت میں کہا کہ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ یہ درخواست دائر کرکے نیکی کا کام کس لئے کیا گیا ہے، کیا درخواست دائر کرنے والا خود آیا تھا یا کسی نے فون کیا تھا۔

اپ کو اس کیس میں فیس ملی، چیف جسٹس کا ایڈوکیٹ آن ریکارڈ رفاقت شاہ سے استفسار

ابھی تک مجھے کوئی فیس نہیں ملی، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کا جواب

چیف جسٹس نے کہا کہ میری سربراہی میں دو رکنی بینچ نے صحافیوں کو حراساں کرنے کیلئے خلاف کیس سنا، پھر یہ کیس میرے ہاتھ سے چھین کر دوسرے بینچ کو بھیج دیا گیا،
جب مجھ سے کیس چھینا گیا اس وقت سپریم کورٹ کس طرح سے چلائی جاتی تھی ،
اس معاملے میں سپریم کورٹ کو استعمال کیا گیا، ہمیں غلط کو غلط کہنا چاہیے.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے