مطیع اللہ جان اغوا کیس: پولیس تفتیش میں سی سی ٹی وی فوٹیج غائب؟
Reading Time: 3 minutesمطیع اللہ جان اغوا کیس میں پولیس کی تفتیش میں پیش رفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد کے ایس ایس پی انویسٹگیشن کو روسٹرم پر بلایا اور پوچھا کہ واقعے کی ریکارڈنگ موجود ہے پھر بھی اغواکاروں کا سراغ کیوں نہ ملا؟
چیف جسٹس کے سوال پر ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے بتایا کہ ہماری سی سی ٹی وی موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹ بولنے کے لیے پولیس میں آئے ہو؟ یہ کیا بات کر رہے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈنگ موجود ہے اور کہہ رہے ہو ریکارڈنگ نہیں، کچھ پڑے لکھے بھی ہو یا نہیں؟
ایس ایس پی انویسٹیگشن نے اثبات میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ پولیس سروس میں کتنے سال ہو گئے ہیں؟
ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے بتایا کہ 13 سال کی سروس ہو گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سے کہا کہ ایسے آفیسر کو ہٹایا کیوں نہیں جا رہا؟ فوری فارغ کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ان کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کیوں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے کارروائی کریں، میں بالکل مطمئن نہیں ہوں ان سے، یہ مذاق بنا رہے ہیں۔
رپورٹرز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حکومت نے نئی نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن اتھارٹی قائم کی ہے، اس معاملے کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنی درخواست میں ترمیم کرنی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عامر میر خلاف کیس استغاثہ نے واپس لے لیا ہے، ابصار عالم کے معاملے پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ زیرِ التوا ہے، اسد طور کے معاملے پر حساس اداروں کو خط بھی لکھا ہے اور ملزمان کے خاکے بھی بھیجے ہیں۔
عامر رحمان نے بتایا کہ نادرا کے مطابق تصاویر کا معیار اچھا نہ ہونے کے سبب حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہوسکی ،
33 ملزمان کو اس معاملے میں شامل تفتیش کیا گیا۔
عامر رحمان کا کہنا تھا کہ ابصار عالم کے معاملے پر ملزمان کی گرفتاری کے لیے انٹر پول کو درخواست دی ہے۔ اب نئے آئی جی آئے ہیں اس معاملے میں پیش رفت ہوگی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سپریم کورٹ براہ راست کسی معاملے پر تفتیش نہیں کرسکتی،عدالتوں سے فوجداری مقدمات میں ناقص تفتیش پر 16 ، 16 سال بعد بری ہو جاتے ہیں،
پولیس یونیفارم پہننے والوں میں جرت ہونی چاہیئے، ہم شفاف تفتیش چاہتے ہیں،
اگر انسپکٹر ہوتا تو ہم کہتے یہ کم پڑھا لکھا ہے لیکن یہ تو ایس ایس پی ہے، یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہئے کہ فوجداری نظام انصاف ناکام ہوچکا ہے،
ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے،پولیس میں صلاحیت ہے مگر جرت نہیں ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے واقعے کی چوتھی سالگرہ ہونے والی ہے، بتایا گیا ہے کوئی پولیس والا باتھ روم تو کوئی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا، پولیس صرف خود کو تحفظ دے رہی ہے، پولیس افسران کے ساتھ لمبے لمبے قافلے چلتے ہیں، مطیع اللہ جان کیس میں تو ویڈیو بھی موجود ہے تو اس کیس کی کھوج کیوں نہیں لگ سکی۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن مسعود احمد بنگش نے جواب دیا کہ مطیع اللہ جان کو جہاں سے اٹھایا گیا اس جگہ پر سیف سٹی کے کیمرے نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پوری دنیا نے ویڈیو دیکھ لی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہی نہیں ہے.
سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے ابصار عالم پر قاتلانہ حملے، مطیع اللہ جان کے اغوا اور اسد طور پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا.
سپریم کورٹ نے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دیتے ہوئے اسد طور پر تشدد کرنے والے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے اور ملزمان کی گرفتاری میں مدد پر انعامی رقم مقرر کر نے کی ہدایت کی.
عدالت نے مطیع اللہ جان کے اغوا کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج پنجاب فارنزک لیب کو بھیجنے کا حکم بھی دیا ہے.