پاکستان پاکستان24

مخصوص نشستوں کا مقدمہ، چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ آپس میں اُلجھتے رہے

جون 25, 2024 4 min

مخصوص نشستوں کا مقدمہ، چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ آپس میں اُلجھتے رہے

Reading Time: 4 minutes

‏پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مخصوص نشستوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ وہ ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، جبکہ انہوں نے جنرل مشرف دور میں وکالت چھوڑ دی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈکٹیٹر کے وقت وزیر بھی بن جائیں اور پھر اصول کی بات کریں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو تاریخ کی بات کر رہے ہیں تو مکمل تاریخ کی بات کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ انتہائی احترام سے کہہ رہے ہیں کہ آج آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم آج ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ہوں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم بطور سپریم کورٹ آنکھیں بند نہیں کر سکتے، ہم نے بطور سپریم کورٹ سر ریت میں دبا لیے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہیں،
یہ سب سیاسی مقدمات نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سب ماضی کی بات کرتے ہیں آج کی کیوں نہیں؟ ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اُن کی نظر میں آج بھی سب سے اہم درخواست اس عدالت میں 8 فروری الیکشن میں دھاندلی کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں، سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے۔

وکیل مخدوم علی خان کے مطابق سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے،
کوئی نہیں کہتاکہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائےگا۔

آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی، انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیٹ سکتی ہے،

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ سیاسی جماعت کس کو کہیں گے؟

مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے،وکیل مخدوم علی خان

یعنی جو لسٹ نہیں دیتی اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے، جسٹس عائشہ ملک

وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے،
جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں،
جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں اس میں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے،
جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا،وکیل مخدوم علی خان

ایک سیاسی جماعت کے منشور میں اقلیتی خانہ شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائےگی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا خریدنا تو ضروری ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی،جسٹس اطہر من اللہ

ہمیں درخواستگزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیرالتوا ہیں،جسٹس اطہر من اللہ

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواستیں کیوں زیرالتوا ہیں اس کا جواب عدالت دے وکیل تو نہیں دے سکتا،
اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ نہیں دی اور بعد میں دے تو مزید غیر جمہوری ہوگا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں،
مسئلہ یہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں،
آپ کہہ رہے اگرسنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں، جسٹس عائشہ ملک

پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں تقسیم گئی ہیں، جسٹس منیب اختر

آزادامیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو،وکیل مخدوم علی خان

کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمائندگی پر بات کرنا ضروری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اگر دو سیاسی جماعت ہیں تو انہی پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، وکیل مخدوم علی خان

مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا، جسٹس عائشہ ملک

دو سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں پر مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، جسٹس عائشہ ملک کا استفسار

مخصوص نشستیں بانٹنے کا طرہقہ ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتاہے، جسٹس جمال مندوخیل

‏میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں، وکیل مخدوم علی خان

سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتیں بھی آپ کی سیاسی جماعت میں اکر بیٹھیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اقلیتی، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے، جسٹس اطہرمن اللہ

ماضی کے انتخابات میں ن لیگ ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی، جسٹس اطہرمن اللہ

جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہورہاہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی، جسٹس اطہر من اللہ

ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، جسٹس اطہر من اللہ

ابھی تو ہم موجودہ درخواستوں پر کرلیں گے بات لیکن مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئےگا جب سپریم کورٹ دوبارہ افسوس کرےگی، جسٹس اطہر من اللہ

حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نہ لسٹ دی اور نا ہی انتخابات میں حصہ لیا، وکیل مخدوم علی خان

2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، جسٹس اطہرمن اللہ

کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے، جسٹس اطہرمن اللہ

اگر ایک سیاسی جماعت ہے جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بائکاٹ کرلیتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل

کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟ جسٹس جمال مندوخیل

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے