اہم خبریں متفرق خبریں

’بلوچ راجی مُچی‘ کا مستونگ میں قافلے پر فائرنگ کا دعویٰ، متعدد افراد زخمی

جولائی 27, 2024 2 min

’بلوچ راجی مُچی‘ کا مستونگ میں قافلے پر فائرنگ کا دعویٰ، متعدد افراد زخمی

Reading Time: 2 minutes

بلوچستان کے علاقے مستونگ میں احتجاج کے لیے گوادر جانے والے قافلے پر فائرنگ کی اطلاعات کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں کئی افراد کی ٹانگوں پر گولیاں لگی ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ ایک بار پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔

سنیچر کی رات جاری کیے گئے ایک بیان میں بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’مستونگ میں فائرنگ سے متعلق افواہیں ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں۔‘

ادھر احتجاجی تحریک کی روحِ رواں ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ ’یکجہتی کمیٹی کے کاروان کو پورے بلوچستان میں ہر جگہ روکا جا رہا ہے۔ ریاست اپنی پوری طاقت اور پوری مشینری ’بلوچ راجی مُچی‘ کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ریاست پرامن اور نہتے عوام پر طاقت کا استعمال کرکے بلوچ عوام کے سامنے اپنی بدترین شکست کا اعتراف کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں بلوچ قوم سے اپیل کرتی ہوں کہ جہاں جہاں بلوچ راجی مُچی کے کاروان کو روکا جا رہا ہے، وہاں پر امن طریقے سے دھرنا دے کر پورے بلوچستان کو بند کریں۔ ہم اس بربریت کے خلاف غیر معینہ مدت کے لیے پورے بلوچستان کو بند کریں گے۔‘

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’آج مستونگ میں قافلے پر حملہ، متعدد بلوچ نوجوانوں کو زخمی کرنا اور دیگر علاقوں میں گرفتاریاں اور تشدد کے تمام واقعات کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور ہم ریاست کے ان تمام واقعات کا حساب لیں گے۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اتوار کو ساحلی شہر گوادر میں احتجاج کی کال دی ہے جس میں شرکت کے لیے صوبوں کے دوسرے شہروں سے قوم پرست تنظیموں کے ارکان قافلوں کی صورت میں روانہ ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ نے گوادر میں ’بلوچ راجی مچی‘ یا قومی مارچ کے لیے صوبے بھر کے لوگوں کو جمع ہونے کی دعوت دے رکھی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ مارچ کی کال کے بعد علاقے بھر میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہے۔

مارچ میں شرکت کے لیے جانے والوں کو روکنے اور مستونگ میں فائرنگ کے واقعے پر بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو دانستہ طور پر خرابی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں، امن میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘

صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق ’گوادر میں مظاہرے کے درپردہ عزائم واضح ہیں، پُرامن احتجاج ہر کسی کا حق تاہم قانون کسی کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بلوچ یکجہتی کونسل کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دے چکے۔ بلوچستان کی خواتین اراکین اسمبلی نے مذاکرات کی دعوت دی۔‘

ترجمان کے مطابق ’وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی میں پالیسی بیان دیا۔ اور بلوچستان حکومت پرُامن احتجاج کا حق تسلیم کرتی ہے تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی جگہ کے انتخاب کا انتظامیہ کا حق تسلیم کرے۔‘

صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’احتجاج کے لیے مقام کا تعین مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ ایک بار بلوچ یکجہتی کمیٹی کو حکومت مذاکرات کی دعوت دیتی ہے۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے