اڈیالہ جیل کے لاپتہ سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کے کیس میں کیا ہوا؟
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اڈیالہ جیل کے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس مرزا وقاص روف نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت الارمنگ ہے۔
جمعرات کو محمد اکرم کی اہلیہ میمونہ ریاض اپنے وکیل ایمان مزاری ایڈوکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
سی پی او راولپنڈی، ایس ایس پی انویسٹیگیشن اور تھانہ صدر بیرونی پولیس کے ایس ایچ او عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے سی پی او راولپنڈی سے استفسار کیا کہ محمد اکرم کی بازیابی کے حوالے سے کوئی سراغ ملا؟
سی پی او راولپنڈی نے جواب دیا کہ محمد اکرم کی بازیابی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ صبح 25 افراد مختلف اداروں کے یونیفارم میں گھر میں داخل ہوئے، اہلکاروں نے اڈیالہ جیل کے اندر سرکاری رہائش گاہ کی تلاشی لی۔
جسٹس وقاص نے کہا کہ یہ جو الزام لگا رہی ہیں یہ کافی سیریس ہے، محمد اکرم کی فیملی کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
عدالت نے سی پی او راولپنڈی کو حکم دیا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات بھی کی جائیں۔
جسٹس وقاص نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے کسی نے لوگوں کے لئے کوئی اعتماد نہیں چھوڑا، ہر کسی نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، سب اللہ تعالٰی کو جواب دہ ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز ایشو کافی الارمنگ ہو چکا ہے، پتہ چلتا ہے بندہ یہاں مسنگ ہے لیکن افغانستان بیٹھا ہوا ہے۔
سی پی او راولپنڈی نے محمد اکرم کی بازیابی کے لیے 14 روز کی مہلت مانگ لی جس پر عدالت نے محمد اکرم کی بازیابی کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کر دی
بازیابی سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس مرزا وقاص روف نے پولیس افسر سے پوچھا کہ آپ نے اب تک لاپتہ سرکاری آفیسر کی بازیابی کے لیے کیا اہم قدم اٹھایا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
کیا آپ شہریوں کو تحفظ دے رہے ہیں، کیا میں اور آپ شہریوں کے تحفظ کے ضامن نہیں؟
جسٹس وقاص نے کہا کہ اس جدید دور میں کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص لاپتہ ہو اور آپ پتہ نہ لگا سکیں، اس تمام صورتحال پر میں حیران ہوں عام شہری کتنا پریشان ہو گا۔
جسٹس وقاص نے کہا کہ ممکن ہے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خود غائب ہوا تو بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے تلاش کریں۔