فوج اور عدلیہ میں ایکسٹینشن کا عمل غلط ہے: مولانا فضل الرحمان
Reading Time: 2 minutesجمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فوج کے سربراہ اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا عمل غلط ہے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے ارکان کی گرفتاری کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ کو احتجاجا تین دن کے لیے بند کردیا جاتا۔ ہمیں کچھ وقت عوام کو بھی دینا چاہیے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی بات کی تھی۔ آپ کے علاقوں میں اس کا ادراک نہیں کیا جا رہا۔ اللہ پاک ملک کو سلامت رکھے۔
میں نے کہا تھا جنوبی پختونخوا کے اضلاع میں سورج غروب ہونے بعد پولیس کمروں میں چلی جاتی ہے۔ مغرب کے بعد فوج کہاں اور ریاست کہاں ہوتی ہے۔
لکی مروت سے پولیس اہلکاروں کا دھرنا شروع ہوا ہے جو بنوں اور باجوڑ تک پھیل گیا ہے۔ اگر پولیس اپنے فرائض سے پیچھے ہٹ گئی تو پھر کیا ہوگا۔
ہم۔کہاں کھڑے ہیں کیوں احساس نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں ادارے اور اداروں کے بڑے اپنی ایکسٹینشن کی فکر میں ہیں۔
ایکسٹینشن کا عمل فوج اور سپریم کورٹ کے اندر غلط ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ساٹھ ہزار مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا پڑے ہیں۔
ہمارے ملک میں انگریز دور کا نظام موجود ہے۔ عدلیہ کے لیے انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے۔ تبدیلی لانی ہے تو صحیح معنوں میں تبدیلی لائیں۔
اپنی روش کو تبدیل کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔
یہاں بات کرو تو توہین عدالت کا مقدمہ بن جاتا ہے۔
امن وامان پر بات کریں تو ایجنسیاں پکڑ لیتی ہیں۔
سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ کے آئین میں لکھا عدالتوں سے متعلق بات نہیں کریں۔
مولانا نے کہا کہ اراکین کو اس طرح گرفتار کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جانی چاہیے۔ پارلیمنٹ لاجز بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہے وہاں بھی پولیس کے جانے پر پابندی ہونی چاہیے۔