پنجاب کالج کا واقعہ ہوا یا نہیں مگر بچی کی زندگی تباہ کر دی: چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesلاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا ہے کہ پنجاب کالج کا واقعہ ہوا یا نہیں مگر بچی کی زندگی تباہ کر دی۔
جمعرات کو لاہور کے تعلیمی اداروں میں ہراسیت کے حالیہ واقعات کی اعلی سطح تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے صوبائی پولیس کے سربراہ کو جمعے کو رپورٹ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا جبکہ رجسٹرار لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
درخواست گزار وکیل کے مطابق ’سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ لاہور کالج کی وائس چانسلر کا کہنا ہے ہراسیت کے خلاف ہم کچھ نہیں کر پا رہے۔‘
وکیل نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک طالبہ کے خودکشی کا واقعہ سامنے آیا، پنجاب یونیورسٹی کے واقعے کی تحقیقات تو ہونی چاہییں۔ پنجاب کالج کے حوالے سے ایک واقعہ سامنے آیا، کہا جا رہا ہے کہ وہ افواہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے ایک فل بنچ میں ایک کیس چل رہا ہے، ہم نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ نجی کالج واقعے کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بچی کی زندگی تباہ کر دی چاہے اس کے ساتھ واقعہ ہوا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی پنجاب عدالت کو بتائیں کہ ایسی ویڈیوز اور تصاویر پھیلنے کے بعد پولیس نے ایکشن کیوں نہیں لیا؟ ریپ وکٹم کا تو نام شائع نشر کرنے پر بھی قانون میں پابندی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئی جی پنجاب پنجاب یونیورسٹی میں خودکشی کے حوالے سے بھی رپورٹ کریں، ’ہمیں پنجاب یونیورسٹی واقعے کا ہاتھ سے لکھا ہوا روزنامچہ چاہیے، کمپیوٹرائزڈ روزنامچہ نہیں۔‘
درخواست اعظم بٹ نامی شہری نے دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ طالب علم لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
’پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں خودکشی کرنے والی طالبہ کی لاش برآمد ہوئی، کہا جا رہا ہے کہ خودکشی کرنے والی طالبہ کو ہراساں کیا جا رہا تھا۔‘
درخواست گزار کے مطابق لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کی طالبات نے بھی ایک کلرک کی جانب سے حراسگی کے خلاف احتجاج کیا، تعلیمی اداروں میں خواتین غیر محفوظ ہیں جہاں ہراسیت اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ’طالبات کی سیفٹی کے لیے حفاظتی اقدامات پر عمل درامد کیا جائے۔‘