اہم خبریں

پنجاب کالج واقعہ، گرفتار وکیل کے خلاف مقدمہ پہلی پیشی پر خارج کیوں؟

اکتوبر 17, 2024 3 min

پنجاب کالج واقعہ، گرفتار وکیل کے خلاف مقدمہ پہلی پیشی پر خارج کیوں؟

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک عدالت نے پنجاب کالج میں مبینہ ریپ واقعے پر سوشل میڈیا ویڈیوز پوسٹ کرنے والے ایک ملزم وکیل فیصل شہزاد کے خلاف مقدمہ پہلی ہی پیشی پر خارج کر دیا ہے۔

جمعرات کو لاہور کے ڈسٹرکٹ کوڈیشل مجسٹریٹ نعیم بخش نے مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔

ملزم فیصل شہزاد کی گرفتاری کی خبر گزشتہ رات پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز کے ایکس اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی تھی جس میں ملزم وکیل کی عمران خان کے ہمراہ تصویر بھی پوسٹ کی گئی۔

لاہور کی عدالت میں ریاست بنام فیصل شہزاد کیس میں ملزم کے خلاف ایف آئی آر نمبر 168/24 پیش کی گئی۔

یہ ایف آئی آر انسداد الیکٹرانک جرائم کے قانون مجریہ 2016 (پیکا) کی سیکشن نو، دس، 20, 24 اور 24a کے تحت درج کی گئی تھی۔
اس مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 109, 500, 505 اور 506 کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) لاہور کے تھانے میں سائبر کرائم رپورٹنگ سیل نے درج کرایا تھا۔

عدالت میں پولیس نے ملزم فیصل شہزاد کو ہتھکڑیوں میں پیش کیا۔ ملزم کی طرف سے وکلا میاں فیض علی اور سلمان شاہد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

مقدمے کے تفتیشی افسر ریکارڈ کے ہمراہ جبکہ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل ریاست کی جانب سے پیش ہوئے۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزم کا 14 روزہ جسمانی ریمانف مانگا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے ریکوری کرنی ہے جبکہ تفتیش بھی مکمل کرنا باقی ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم پر الزام ہے کہ پنجاب کالج ریپ واقعے سے متعلق 11 ویڈیوز کی ہیں اور ابتدائی ٹیکنیکل رپورٹ کے مطابق ملزم جعلی پروپیگنڈے اور حکومت کے خلاف عوام کو تشدد پر ابھارنے یا اُکسانے میں ملوث ہے۔

ملزم کا دفاع کرنے والے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ فیصل شہزاد بے گناہ ہے اور اُس کے خلاف سیاسی مخالفت/ پولیٹیکل وکٹامائزیشن کی بنیاد پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔

دفاع کے وکیل نے کہا کہ ملزم نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا جو ایف آئی آر میں درج ہے اس لیے مقدمہ خارج کیا جائے۔

دوسری جانب عدالت میں ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل نے ملزم کے خلاف مقدمے کو خارج کرنے کی مخالفت کی اور بتایا کہ سوشل میڈیا پر ملزم وکیل کی پوسٹ زیادہ پھیلی کیونکہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی ایک تصویر میں دکھائی دیتے ہیں۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم کے خلاف ریکارڈ پر کافی مواد موجود ہے اس لیے جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ریکارڈ کے جائزے اور دونوں اطراف کے تفصیلی دلائل کے بعد بظاہر کوئی ایسے ڈیجیٹل میڈیا/یو ایس بھی مواد یا شواہد پیش نہیں کیے گئے جن کا فرانزک کرایا گیا ہو جو استغاثہ کے مؤقف کو ثابت کر سکیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق صرف ویڈیوز کے سکرین شاٹس کے پرنٹ عدالت کو دکھائے گئے جن پر سب ٹائٹل لکھے ہوئے ہیں۔ ان سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ملزم نے عوام کو اکسایا ہو اور اُن کو کسی جگہ اکھٹے ہو کر متنازع کالج یا ریاست کے خلاف کوئی فعل کرنے کا کہا ہو۔

اسی طرح بظاہر ملزم اس معاملے کو شروع کرنے والا بھی نہیں جس سے عوام میں حکومت / ریاست کے خلاف مبینہ ریپ واقعے سے اشتعال پھیلا۔

عدالت کے مطابق دفاع کا یہ مؤقف بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے خلاف سیاسی مخالفت پر کارروائی کی جا رہی ہے کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ملزم کی سابق وزیراعظم کے ساتھ بنائی تصویر پوسٹ کی جو اُن کے مخالف ہیں۔

مزید یہ کہ ایف آئی آر کے جائزے سے صرف پیکا کا سیکشن دس ہی الزام میں گرفت کرتا ہے جس کے شواہد پیش نہ کیے جا سکے۔

ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تفتیشی افسر کی استدعا مسترد کی جاتی ہے اور ملزم کے خلاف مقدمہ خارج کر کے رہا کرنے کا حکم سنایا جاتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے