بازیاب کرائے گئے 8 ارکان پارلیمان کے ووٹوں سے آئینی ترمیم منظور
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی پارلیمنٹ نے ملک کے آئین میں 26ویں ترمیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب پارلیمانی کمیٹی کرے گی جبکہ عہدے کی مدت تین سال ہوگی۔
اتوار کی شب بازیاب کرائے گئے 8 ارکان پارلیمان کے ووٹوں سے آئینی ترمیم منظور کرائی گئی۔ ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو سینیٹرز اور تحریک انصاف کے چھ ارکان قومی اسمبلی شامل تھے۔
ان آٹھ ارکان کے بارے میں گزشتہ ایک ہفتے سے بتایا جا رہا تھا کہ حکومت نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مدد سے گھروں سے اُٹھا کر کسی خفیہ جگہ رکھا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اور تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اس حوالے سے الزامات عائد کیے تھے۔
بی این پی کے دو سینیٹرز کو پارلیمنٹ ہاؤس لائے جانے کی ویڈیو وائرل ہوئی جن میں اُن کے چہروں پر خوف کے آثار واضح تھے۔
ترمیم کے اہم نکات کیا ہیں؟
اس ترمیم کے نتیجے میں اعلٰی عدلیہ میں آئینی بینچوں کی تشکیل، چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے طریقۂ کار میں تبدیلی، چیف جسٹس کے عہدے کے لیے نئی معیاد مقرر ہو جائے گی جبکہ جوڈیشل کمیشن بھی نئے سرے سے تشکیل دیا جائے گا۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 224 اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت تھی، ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران حق میں 225 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ بل کی مخالفت میں 12 ووٹ پڑے۔
آئینی ترمیم کی منظوری میں پانچ منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹوں کا بھی اہم کردار تھا جن میں سے چار اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے اور ایک کا تعلق ق لیگ سے تھا۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی میں سے ظہور قریشی، عثمان علی، اورنگزیب کھچی اور مبارک زیب نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تحریک انصاف کی حمایت سے انتخاب جیت کر ق لیگ کا حصہ بننے والے چوہدری الیاس نے بھی ترمیم کے لیے ووٹ دیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے ان ارکان کے ’ضمیر خریدنے‘ اور ان پر ’دباؤ ڈال کر‘ ووٹ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ان ارکان کے نام لے کر اور ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور انہیں غیر قانونی طور پر لاپتہ کرنے پر آواز اُٹھائی اور کہا کہ انہیں اپوزیشن بینچوں پر واپس بھیجا جائے۔