اہم خبریں

لاہور ہائیکورٹ میں خود سوزی کرنے والا کون تھا؟

مارچ 1, 2025 6 min

لاہور ہائیکورٹ میں خود سوزی کرنے والا کون تھا؟

Reading Time: 6 minutes

عمار علی جان
لاہور ہائیکورٹ میں اپنے آپ کو آگ لگانے والا محمد آصف جاوید آج لاہور کے میو ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ آصف ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا جو Nestle Pakistan میں ملازمت کرتا تھا۔ 9 سال پہلے محنت کشوں کے حقوق کے لئے یونین بنانے کی پاداش میں نیسلے کی انتظامیہ نے اسے ملازمت سے برطرف کردیا۔ کچھ سال کی جدوجہد کے بعد National Industrial Relations Commission میں آصف اپنا کیس جیت گیا اور کمیشن نے اسے ملازمت پر بحال کردیا۔ لیکن انتظامیہ نے اس کو حق دینے کے بجائے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی اور بعد میں ہائکورٹ میں رٹ کردی۔ یہ سلسلہ 9 سال تک چلتا رہا اور ہائکورٹ کے جج صاحب مسلسل تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔

اس عرصے میں آصف کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ اسے اپنا گھر اور گاڑی بیچنے پڑے۔ کرائے کے مکان میں کرایہ دینا بھی ممکن نہیں رہا اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بچوں کے لئے تعلیم تو دور کی بات، دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہوگئی۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ حکمران طبقے کی سب سے طاقتور پرت کے سامنے اپنے اور اپنے بچوں کے حق کے لئے ڈٹ گیا۔ لیکن وقت ایک محنت کش کی کمزوری ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا رہتا ہے اس کے وسائل کم ہوتے جاتے ہیں اور گھر اور خاندان کی ٹینشن بڑھتی جاتی ہے۔ نیسلے کی انتظامیہ نے وقت کے ہتھیار کو ہی اس نڈر محنت کش کے خلاف استعمال کیا جس نے بالآخر اس کے حوصلے کو توڑ دیا اور خود سوزی پر مجبور کردیا۔

وہ کس قسم کی بے بسی ہوگی کہ ایک یونین لیڈر، جو دوسروں کی زندگی کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتا تھا، اپنے زندگی ختم کرنے پر مجبور ہوگیا؟ سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہی انسان کی اپنی محنت سے بیگانگی پر قائم ہے یعنی ایک ورکر کی حیثیت مشین کے پرزے سے زیادہ نہیں۔ اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب کوئی ورکر آصف کی طرح اپنے حقوق مانگنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو یہ نظام اس کی زات کی نفی کرنے کے لئے اپنی تمام تر طاقت کو بروئے کار لاتے ہوتے اس کی انسانیت کو کچلنے کی کشش کرتا ہے۔ اگر معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو آصف کی اتنی تنخواہ نہیں ہوگی جتنا پیسہ انتظامیہ نے اس کیس میں وکیلوں پر لگایا ہوگا۔ لیکن معاملات صرف معاشیات کے نہیں بلکہ نفسیات کے ہیں۔ اگر ایک ورکر بھی ایسا آجائے جو نہ جھکتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے تو پھر دیگر ورکر بھی اس کو دیکھ کر اپنے آپ کو مکمل انسان سمجھنا شروع کردیں گے۔ اور جو نظام لوگوں کی انسانیت کی نفی پر قائم ہو، وہ ایسے شخص کو جس کے لئے عزت نفس اپنے وجود سے زیادہ عزیز ہو، نشان عبرت بنانے کے لئے ہر حد تک جاسکتا ہے۔

کیونکہ نیسلے ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے، میں تھوڑی بات عالمی سرمایہ کاری پر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ تیسری دنیا کی ایک تاریخی بدقسمتی یہ ہے کہ کالونیل سسٹم کی لوٹ مار کی وجہ سے یہاں پر پیداواری نظام اتنا کمزور ہے کہ ٹکنالوجی سے لے کر بنیادی اشیا تک ہمیں بیرونی ملکوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ عالمی سرمائے سے کن شرائط پر سمجھوتے ہوں تاکہ اس سرمایہ کاری سے ورکروں اور ملک کو فائدہ ہوسکے۔ پروفیسر Utsa Patnaik لکھتی ہیں کہ عالمی سرمائے کی ہمیشہ دو کوششیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس ملک میں سرمایہ کاری کریں، وہاں پر لیبر اور ماحولیات کے قوانین بہت کمزور ہوں تاکہ ملک کے وسائل اور اس کے عوام کی محنت کو پوری طرح نچوڑا جاسکے۔ دوسرا یہ کہ وہاں پر لوکل انڈسٹری کمزور رہے تاکہ اس ملک کے قدرتی وسائل پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی اجارہ داری قائم رکھیں اور ان کو لوکل انڈنٹری سے مقابلہ نہ کرنا پڑے۔ معیشت دان Jason Hickel کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار اتنی زیادہ ہے کہ ہر ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے وہ تیسری دنیا کے ممالک سے اوسطا 24 ڈالر منافع کماتے ہیں۔

اس نظام کو برقرار رکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر مزدور دوست یا ترقی پسند حکومت برسراقتدار آتی ہے تو عالمی سامراج ملٹی نیشنل کمپنیوں کے "حقوق” کے دفاع کے لئے ان حکومتوں کے تختے الٹانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال لاطینی امریکہ کے ملک Guatemala کی ہے جس کو United Fruit Company نے وہاں پر کیلوں (bananas) کی پیداوار پر اجارہ داری قائم کی تھی۔ 1953 میں وہاں ایک ترقی پسند رہنما، Jacob Arbenz, نے جب الیکشن جیتنے کے بعد کمپنی پر لیبر اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ان سے زمین کی ملکیت چھین لی، تو کمپنی نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر Arbenz کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور Guatemala کو ایک بار پھر کمپنی، امریکہ اور فوج کے زیر تسلط دے دیا۔ Banana Republic کی اصطلاح اسی تاریخ سے منسوب ہے۔

کچھ بات نیسلے کے بارے میں بھی کرنا ضروری یے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اعتبار سے ایک بدنام کمپنی ہے۔ مثال کے طور پر اپنی چاکلیٹ، جس کو Kit Kat کے نام سے جانا جاتا ہے، کو بنانے کے لئے cocoa کی کاشتکاری مغربی افریقہ، اور خصوصی طور پر Ivory Coast میں کی جاتی ہے۔ چند سال پہلے یہ پتہ چلا کہ وہاں پر 12 سے 15 سال کے بچوں سے 10 12 گھنٹے کام کروایا جاتا ہے جو کہ چائلڈ لیبر اور غلامی کے زمرے میں آتا ہے جبکہ ان کو اس کا معاوضہ دن کے ایک ڈالر سے بھی کم ملتا ہے۔ اسی طرح کولمبیا میں تین ورکروں نے جب نیسلے کے خلاف یونین بنائی تو ان تینوں کو قتل کردیا گیا۔ اس کے ساتھ کولمبیا میں نیسلے نے اپنے دفاتر اور زمینوں کو ان paramilitary قوتوں کے حوالے کیا جو لاطینی امریکہ کے خطے میں کمپنی مالکان کے لئے مزدور یونینز کو کچلنے کا کام کرتی ہیں۔

لیکن اس سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پانی جیسی ایک قدرتی نعمت، جو صدیوں سے لوگوں کے لئے مفت دستیاب تھی، کو تیسری دنیا میں ایک بے پناہ منافع کا ذریعہ بنادیا ہے۔ ایک طرف سے کمپنیاں منافع کے حصول کے لئے ماحولیات کو تباہ کرتی ہیں اور دوسری جانب "صاف پانی” اور "صاف ہوا” پر اجارہ داری قائم کرکے اسی ملک میں بیچتی ہیں۔ جو محنت کش مہنگا پانی نہیں خرید سکتے، ان کے حصے میں بیماریاں اور موت لکھی جاتی ہے۔ اسی لئے پروفیسر علی قادری لکھتے ہیں کہ سرمایہ اپنا منافع غریب عوام اور اقوام کی زندگیاں کم کرکے بڑھا لیتا ہے۔

نیسلے کے خلاف دنیا بھر میں لیبر اور ماحولیات کے حوالے کیس ہوئے ہیں لیکن واشنگٹن میں اس کی لابی بہت مظبوط ہے۔ پاکستان میں اسے سید بابر علی نے متعارف کروایا جو ہمیشہ سے طاقت کے مراکز کے قریب رہے ہیں۔ نیسلے کیخلاف پاکستان میں بھی کئی کیس ہوئے جن میں سب سے بڑا کیس ہمارے ماحولیات اور قدرتی پانی کے وسائل کو تباہ کرنے کا تھا جس میں سپریم کورٹ تک نے ان پر کچھ پابندیاں بھی لگائیں لیکن حال ہی میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ نیسلے اس فیصلے کو نظر انداز کرکے اب بھی بے انتہا پانی زمین سے کھینچ رہا ہے جس سے ہمارے آنے والی نسلوں کے لئے پانی کی قلت ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔

سزا دینا تو دور کی بات، کسی اخبار میں نیسلے کے خلاف کچھ چھاپنا بھی ناممکن ہے۔ میں خود بہت عرصہ انگریزی اخباروں میں لکھتا رہا ہوں جہاں پر حکومت، حتی کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی مضمون چھاپ دئے جاتے ہیں لیکن کمپنیوں کے خلاف کچھ بھی چھاپنا ناممکن ہے۔ ان حالات میں یہ تعجب کی بات ہرگز نہیں کہ آصف جاوید ایک دن ناامید ہوگیا۔ بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان خانیوال میں بیٹھا اس ملٹی نیشنل کمپنی، جس کے پیچھے مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ موجود تھی، اکیلا کس طرح نو سال تک اپنے حقوق کے لئے ڈٹا رہا ہے۔ وہ باہمت تھا لیکن جس نظام سے وہ لڑرہا تھا وہ بے انتہا مظبوط تھا جبکہ اس کے ساتھی، یعنی مزدور تحریک، ابھی بہت کمزور تھی۔

اس طرح کی جدوجہد کو دیکھ کر میرے دل میں بابا لطیف انصاری، مولانا شہباز، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری روبینہ جمیل صاحبہ اور مزدور کسان پارٹی کے عرفان کامریڈ، اور خلق یوتھ فرنٹ کے نوجوان وکیل حسن منور کے لئے عزت بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ صرف انقلابی لفاظی نہیں کرتے بلکہ روز مرہ کی بنیاد پر لیبر ڈیپارٹمنٹ میں مزدوروں کو ریلیف دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال ہی میں چونگی امرسدھو میں ہم نے ایک دفتر کا بھی افتتاح کیا ہے جس کا مقصد محنت کشوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرنا ہے تاکہ ان کو انصاف کے حصول کے لئے رسوا نہ ہونا پڑے۔ اس جدوجہد کا مقصد صرف معاشی انصاف لینا نہیں بلکہ پاکستان میں محنت کشوں کی ایک متبادل قوت کو تشکیل کرنا ہے تاکہ اپنے وسائل کو ملٹی نیشنل کمپنیوں او4 مقامی اسٹیبلشمنٹ کی لوٹ مار کا ذریعہ بنانے کے جائے محنت کشوں کی ترقی کا ذریعہ بنائیں۔ آصف جاوید جٹ ہم سب پر یہ قرض چھوڑ گیا ہے۔

جن کو اب بھی اس سسٹم سے امید ہے کہ یہ عوامی جدوجہد کے بغیر ٹھیک ہوجائے گا تو وہ نوٹ کرلیں کہ کونسی سیاسی پارٹی نے اس ایشو پر تحریک چلانے کی بات کی ہے؟

واحد ایکشن جج صاحبان کی طرف سی لی گئی ہے جنہوں نے آگ میں جھلکتے انصاف کے اس طالب کے مرنے کے بعد کہا ہے کہ ہائکورٹ کی سکیورٹی بڑھا دی جائے تاکہ کورٹ کے قریب ایسے واقعات دوبارا رونما نہ ہوں۔ آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس رویے کو شائستہ زبان میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے