سعودی عرب میں جنسی ہربل ادویات بیچ کر لاکھوں کمانے والے پاکستانی
Reading Time: 4 minutesتحریر : منصور ندیم
میں جہاز میں سوار ہوا تو مجھے جو سیٹ ملی، اتفاق سے کھڑکی والی تھی۔
ساتھ ایک نوجوان آکر بیٹھا، ہم نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا، کچھ دیر بعد وہ مجھے کہنا لگا کہ
آپ کیا مجھے ہاٹ اسپاٹ شئیر کریں گے؟
میں نے مسکرا کر جواب دیا : ہر گز نہیں۔
وہ ہکا بکا رہ گیا۔ پھر کہنے لگا کیا آپ کے پاس انٹرنیٹ سہولت نہیں ہے ، میں نے کہا کہ موجود ہے، مگر معذرت میں شئیر نہیں کرسکتا، شائد یہ بات اس کے لیے بہت غیر متوقع تھی۔ یہ سن کو وہ کہنے لگا دراصل میں ریاض شہر میں ہوتا ہوں، میں نے ایمرجنسی ٹکٹ لی ہے تو میں دمام سے ٹرانزٹ فلائٹ لی ہے، کل کا دن ہوٹل میں سوتا رہا تھا۔ میرا انٹرنیٹ پیکج ختم ہو گیا ہے، میں نے واٹس ایپ میسجز چیک کرنے ہیں۔
خیر میں نے مسلسل معزرت رکھی کہ میں آپ کو انٹرنیٹ شئیر نہیں کرسکتا کیونکہ میں آپ کو نہیں جانتا اور میرا انٹرنیٹ میرے نام سے ایشو کردہ سم کارڈ پر رجسٹر ہے، میں اسے کسی اجنبی کے ساتھ کسی بھی صورت شیئر نہیں کروں گا۔ لیکن آپ ائیرپورٹ کا فری انٹرنیٹ اپنے رجسٹرڈ سم کارڈ سے ایکسز کرسکتے ہیں، میں اس کا طریقہ بتا سکتا ہوں۔
خیر وہ خاموش ہوگیا ، پھر کچھ دیر میں وہ باتیں کرنے لگا، مجھے کہنے لگا کہ
وہ : آپ کراچی جارہے ہیں
میں: جی ہاں،
وہ : وہیں رہتے ہیں
میں : جی ہاں ، دمام میں نوکری اور کراچی سے تعلق ہے
وہ: دمام میں کیا کرتے ہیں ؟
میں : ایک پرائیوٹ کمپنی میں نوکری کرتا ہوں ۔
وہ : ہمارا ریاض شہر میں اچھا کاروبار ہے، ہماری تین چار دکانیں ہیں ریاض کے مختلف شہروں میں جہاں ہم حکمت کی دوائیاں بیچتے ہیں۔
میں: آپ کی تعلیم کیا ہے؟
وہ: میں نے آٹھویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی، ہمارے گاؤں میں ماسٹر تعلیم سے زیادہ پٹائی کرتے ہیں۔
میں : پھر آپ کیسے حکمت کرتے ہیں؟
وہ : یہ ہمارا خاندانی کام ہے، یہ حکمت اللہ کے فضل سے ہمیں نسلا وراثت میں ہی منتقل ہو جاتی ہے۔
میں : یعنی نہ آپ نے حکمت پڑھی ہے نہ ہی کوئی تجربہ ہے ؟
وہ : بالکل ! بلکہ میرے دو اور بھائی بھی سعودی عرب میں پاکستانی علاقوں میں پنساری کی دکانیں چلا رہے ہیں اور وہ بھی حکمت کر رہے ہیں اور انہوں نے بھی کوئی حکمت کی تعلیم نہیں لی ہوئی
میں : واہ۔۔ آپ کا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟
وہ : بہت بہترین ! میری عمر 26 سال ہے میں نے دو سالوں میں صرف ایک دکان سے لاکھوں ریال کمائے ہیں ۔ ہمارے کاروبار کا یہاں پر بہت اسکوپ ہے
میں: وہ کیسے ؟ میرے علم کے مطابق تو مقامی لوگ اس طرح کی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے؟
وہ : ہمارا کام مقامی لوگوں پر نہیں بلکہ پاکستانیوں پر ہی چلتا ہے اور خاص طور پر جب پاکستانیوں نے پردیس چھٹی جانا ہوتا ہے، وہ ہم سے دوائیاں لے کر جاتے ہیں۔ ہمارے پاس چھٹیوں پر جانے کے لیے مخصوص دوائیوں کے پیکج ہوتے ہیں، جو بہت بکتے ہیں۔
میں : حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا ، اور وہ چار سے چھ مختلف جڑی بوٹیوں کے نام بتا کر ان کے خواص اور خصوصا جنسی عمل کی توسیع وغیرہ کے لئے ان ادویات کے فوائد بتا رہا تھا۔ اور یہ بھی بتا رہا تھا کہ اپنے بھائیوں کی نسبت میں گھیرنے میں زیادہ سمجھدار ہوں، جو پیکج میرے بھائی دو ہزار ریال کا بیچتے ہیں میں وہ پیکج چار سے پانچ ہزار ریال کا بھی بیچ دیتا ہوں، اور یہ بتا رہا تھا کہ وہ گاہک کو ڈائرکٹ دوائی دینے کے بجائے پہلے انٹرویو لے کر گاہک کی مالی حالت اور اس کی مجبوری کو جانچتا ہوں اور اسی حساب سے دوائی کی قیمت بڑھا دیتا ہوں۔
اس کے پاس بالکل اسی طرح کی کہانی تھی جو ہم نے کسی زمانے میں لوکل بسوں میں کسی ایک حکیم کو سرمہ بیچتے ہوئے یا کوئی بھی ایسی دوائی بیچتے ہوئے ایک لا تعداد طویل بیماریوں کا علاج فقط پانچ روپے کی دوائی سے کرنے والی تقریر میں سنا تھا۔ مجھے بتانے لگا کہ ابھی بھی اس کے پاس ہینڈ کیری میں ایک ایسی دوائی موجود ہے جس میں کوئی ایک جڑی بوٹی موجود ہے جس کی قیمت ایک لاکھ ریال فی کلو ہے، وہ بہت اعلی دوائی ہے، وہ مجھے مفت دے سکتا ہے، میں نے اس سے کہا کہ میں ان دوائیوں پہ یقین ہی نہیں رکھتا اور نہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے میرا یہ جملہ بھی بہت حیرت کا باعث تھا۔
اس کے بعد بھی اس لڑکے سے کافی دیر بات ہوتی رہی، وہ نہ جانے کون کون سی دوائیوں کے نام اور یہ بتاتا رہا کہ اکثر امراض میں ہم ایک ہی دوائی سب مریضوں کو دے دیتے ہیں، باتوں باتوں میں، میں نے اسے بتایا کہ مجھے ذیابیطس ہے، تو جھٹ مجھے اس کے بارے میں بتانا شروع کیا کہ وہ اس کی بھی دوا دے سکتا ہے ایک ہفتے میں شوگر جڑ سے ہی مکمل ختم ہوجایے گا، میں نے قہقہ لگایا اور اسے کہا کہ مجھے ان دوائیوں کی ضرورت نہیں ہے نہ میں حکیمی دوائیوں پر یقین رکھتا ہوں، نہ ہی شوگر جڑ سے ختم ہوتا ہے، بہرحال اصل بات یہ تھی کہ مجھے ہماری دیسی لوگوں پر خاصہ رحم آ رہا تھا کہ دیکھو یہ 26 سال کا ایک لڑکا جو ماہانہ اپنی آمدن 30 سے 40 ہزار ریال خالص بچت سعودی عرب میں کما رہا تھا، اور وہ صرف جنس کے نام پر دوائیاں بیچ کر کمارہا ہے، دیسی لوگوں پر حیرت ہے جو بغیر فیملیوں کے پردیس میں رہ کر جب سال دو سال تین سال بعد چھٹی جا رہے ہوتے ہیں تو ہزاروں ریال اس طرح کی غلیظ دوائیوں پر خرچ کرکے ان حکیموں کے ہاتھوں لٹ کر جا رہے ہوتے ہیں بجائے یہ کہ انہیں یہ پیسہ دیں، اپنی خوراک اور ان پیسوں سے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ تحائف ہی لے جائیں۔
نوٹ :
1- سعودی عرب میں کبھی بھی کسی کے ساتھ بھی خصوصا طور پر اپنے نام سے جاری کردہ سم کارڈ سے انٹرنیٹ شیئر مت کریں، کیونکہ اگر اس شخص نے کبھی بھی انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی سوشل میڈیا پر کوئی بھی غلط بات لکھی اور وہ کسی قانونی گرفت میں آئے گا تو اس کے موبائل سے اگر آپ کے نام سے جاری کردہ سم کارڈ سے بھی انٹرنیٹ استعمال ہوا ہوگا تو آپ کے لیے بھی مصیبت بن سکتی ہے۔
2- جو حالت اس لڑکے نے حکمت کے بارے میں بتائی تقریبا کم و بیش یہی معاملات پاکستان میں بھی ہیں حکیموں کا اور ان کی ادویات کا ہے، اس لیے حکیموں کے ہاتھوں لٹنے کے بجائے وہ پیسے اپنے کھانے پینے پر یا اپنے گھر والوں کو لگا دیں ان کے چکروں میں کبھی مت آئیں۔
3- سعودی عرب میں باقاعدہ حکمت کی کوئی دکانیں نہیں کھلتی، نہ ہی لائسنس ملتا ہے، یہ تمام حکیم حضرات پنساری کی دکان کھول کر اس کی آڑ میں ایسے معجون و ادویات بیچتے ہیں۔