پاکستان

عورت کے قانونی حقوق شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ختم نہیں ہو جاتے: سپریم کورٹ

اپریل 6, 2025 3 min

عورت کے قانونی حقوق شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ختم نہیں ہو جاتے: سپریم کورٹ

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ایک تازہ ترین فیصلے میں لکھا ہے کہ ’عورت کے قانونی حقوق، اس کی شخصیت اور اس کی خودمختاری کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اُن حقوق کا انحصار شادی شدہ نہ ہونے پر ہے۔‘

درخواست گزار زاہدہ پروین کو گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول، ضلع کرک، میں پرائمری سکول ٹیچر (بنیادی تنخواہ سکیل-12) میں ملازمت خیبرپختونخوا سول سرونٹ (تقرری، پروموشن اور ٹرانسفر) رولز، 1989 (قواعد) کے 10(4) کے تحت بذریعہ آرڈر مورخہ 17.03.2023 کو دی گئی۔
اس کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (زنانہ)، ڈسٹرکٹ کرک نے 15.05.2023 کے حکم کے ذریعے شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر درخواست گزار کی تقرری کا حکم واپس لے لیا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ درخواست گزار خاتون ٹیچر کی خدمات ایک امریکی فقیہہ، قانونی نظریہ دان اور سیاسی فلسفی مارتھا فائن مین کے الفاظ کی بنیاد پر ختم کر دی گئی تھیں۔ مقدمہ C.P.L.A. نمبر 566-P/2024 2 ایک وضاحتی خط مورخہ 21.02.20202 پر (مضبوط وضاحت)، جس میں کہا گیا ہے کہ سروس کے دوران وفات پانے والے سرکاری ملازم کے بیٹے/بیٹی کے کوٹے کے تحت تقرری کا فائدہ کسی ایسی خاتون کے لیے دستیاب نہیں جس نے شادی کر لی ہو۔

صوبائی حکومت کی جانب سے 28.04.2023 کو مزید رہنمائی/وضاحت جاری کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ شادی شدہ بیٹی کو صرف اسی صورت میں تقرری کا اہل سمجھا جا سکتا ہے جب وہ اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر چکی ہو اور اپنے والدین پر انحصار کرتی ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ شادی شدہ بیٹیوں کا رولز 10(4) کے دائرہ کار سے اخراج محض طریقہ کار کی بے قاعدگی نہیں بلکہ یہ ایک گہری معاشرتی ساخت کو ظاہر کرتی ہے جو عورت کی شناخت کے بارے میں پدرسری مفروضوں پر مبنی خامی ہے۔ اور قانونی اور معاشی نظام میں اس کے کردار سے متعلق یہ مفروضہ ہے کہ شادی کے بعد عورت اپنی آزاد قانونی شناخت کو ترک کر دیتی ہے۔ اور معاشی طور پر اس کا انحصار اپنے شوہر پر ہو جاتا ہے۔

’عورت کے مرد سے رشتے میں خواہ وہ باپ ہو، شوہر ہو یا بیٹا، مالیاتی آزادی کوئی استحقاق نہیں بلکہ ایک ضروری شرط ہے۔ شہریت، خودمختاری اور شخصیت کا مکمل ادراک بھی۔ ایک شادی شدہ بیٹی یکساں طور پر اپنے فوت شدہ والدین کی اولاد ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شادی کی بنیاد پر اُن کے اس کے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘

فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ مساوی شہری کے طور پر آئینی شناخت میں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ عورت کی مالی آزادی ہی اس اصول کی بنیاد ہے۔

’ہم ہائیکورٹ کے فیصلے میں استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر یہ جملہ کہ ’ایک شادی شدہ بیٹی اپنے شوہر کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ایسی زبان نہ صرف حقیقتاً اور قانونی طور پر غلط ہے بلکہ گہرے پدرسری، فرسودہ، دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتی ہے جو بنیادی طور پر غیرموافق ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’اس طرح، ہم اس بات کی تصدیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام عدالتی اور انتظامی حکام کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے کہ صنفی طور پر حساس اور صنفی غیرجانبدار زبان استعمال کریں۔

آئین کے آرٹیکل 14، 25 اور 27 میں تمام شہریوں کو وقار، مساوات اور خودمختاری کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور عدلیہ کو اس عمل کی قیادت کرنی چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنانا کہ قانون کی تشریح اور اطلاق کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں کسی صنف کو خارج نہ کیا جائے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مندرجہ بالا آبزرویشنز کے ساتھ درخواست گزار زاہدہ پروین کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے اُن کو ملازمت پر بحال کیا جاتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے