احمد نورانی کے لاپتہ بھائیوں کا مقدمہ درج، ہائیکورٹ میں کیا ہوا؟
Reading Time: 3 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ کو پولیس حکام نے بتایا ہے کہ 28 دن سے لاپتہ صحافی احمد نورانی کے اغوا کا مقدمہ تھانہ نون میں درج کر لیا گیا ہے۔
منگل کو دو بھائیوں کی بازیابی درخواست پر سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی۔
ایڈوکیٹ ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دو لاپتہ بیٹوں کی درخواست گزار والدہ اپنی بیٹی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں جبکہ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے بتایا کہ تھانہ نون میں اغوا کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے پوچھا کہ پنجاب کے رحیم یار خان میں کوئی ایکٹیوٹی ملنے کی بات کی گئی تھی۔
آئی جی نے بتایا کہ اس میں مختلف صوبے شامل ہو گئے اس لیے سپیشل انویسٹیگشن ٹیم بنانے کے لیے لکھا ہے، پنجاب پولیس کے چار افسران ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں جو تفصیلات فراہم کر رہے ہیں۔ پنجاب پولیس سے ہمیں معاونت ملی رہی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے کال ڈیٹا سے متعلق بتایا تھا اس کا کیا بنا؟
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جے آئی ٹی تشکیل دی اور ایک اور ٹیم بھی بنائی ہے، پنجاب سندھ مختلف جیلوں سے ہیلتھ سنٹرز رپورٹس آنا تھیں وہ تمام رپورٹ آچکی ہیں۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہنرپورٹس نہیں میں نے کہا تھا کنکریٹ رپورٹ بتائیں ،
14 اپریل کو ہماری ٹیم بنی ہے جے آئی ٹی تشکیل کے لئے وزارت داخلہ کو لکھ دیا ہے ، آئی جی اسلام آباد
دو صوبوں کی اتھارٹیز ہمارے ساتھ کوآرڈینیشن میں ہیں ، آئی جی اسلام آباد
وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ
28 دن ہو چکے ہیں سماعت سے ایک دن قبل یہ ایف آئی آر کاٹ لے کر آئے ہیں، پولیس اغوا کاروں کی مکمل سہولت کاری کر رہی ہے۔
ایڈوکیٹ ہادی علی چٹھہ نے بتایا کہ
22 اے ہماری درخواست میں ہفتہ کے روز انہوں نے کہا پولیس پی ایس ایل سیکورٹی میں مصروف ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے پولیس حکام سے کہا کہ آپ نے ایف آئی آر دے دی میں اس کو نمٹا نہیں رہا، ابھی تک سوائے رحیم یار خان کے موبائل ایکٹیویٹی کے علاؤہ آپ نے کچھ نہیں بتایا، آپ تو موبائل بند بھی ہو اس تک رسائی کر سکتے ہیں۔
انعام امین منہاس نے ایڈوکیٹ ایمان مزاری سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی معلومات ہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ پولیس نے سی سی ٹی فوٹیج اپنے قبضے میں لے لی، اور انہوں نے ہمسایوں کو ڈرایا دھمکایا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج فیملی کو نہیں دینی ، ایڈوکیٹ ایمان مزاری
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ اب ایف آئی آر درج پو چکی ہے آپ یہ ساری معلومات پولیس کو دے سکتے ہیں، میں ایف آئی آر کی بنیاد پر اس کو نمٹا نہیں رہا۔ اگر اسلام آباد نہ ہوتا چیچو کی ملیاں میں ہوتا تو پھر کہتا ،
یہ اسلام آباد میں واقعہ ہوا ہے آپ کیا کر رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ ہم عدالت سے استدعا کر رہے ہیں لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کرا کے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا جائے، ان کو پتہ ہے وزارت دفاع کو بلا لیں یا سیکٹر کمانڈر کو بلا لیں۔ عدالت اوپن کورٹ میں تاریخ دے دے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ میں رپورٹس پڑھوں گا پھر تاریخ دے دوں گا۔
وکیل نے کہا کہ پچھلی سماعت پر بھی آرڈر میں دونوں بھائیوں کو بازیاب کرا کے پیش کرنے کا آرڈر نہیں تھا۔
جب ان کے حوالے سے معلوم ہو جائے پھر پروڈکشن آرڈر ہوتے ہیں ، جسٹس انعام امین منہاس
دو لاپتہ بھائیوں کی والدہ کی عدالت کے سامنے جذباتی گفتگو
میرے دو بچے ایک 30 سال اور 38 سال کے ہیں، اس کیس کو اس طرح ہینڈل کیا جا رہا ہے جیسے دونوں بلی کے بچے تھے ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ اگر کسی بڑے کے یہ بچے ہوتے تو پھر پتہ چلتا۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں رپورٹ آنے دیں۔
ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ
28 دن کے بعد آئی جی صاحب کہہ رہے ہیں انہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔
والدہ نے آبدیدہ ہو کر عدالت سے نکلتے ہوئے کہا کہ یہ کورٹ ہی نہیں ہونی چاہیے سب مذاق دنیا کے لئے بنایا ہوا ہے۔
عدالت آئندہ سماعت کی تاریخ تحریری آرڈر میں جاری کرے گی۔