تھائی وزیراعظم کی پڑوسی ملک کمبوڈیا کے رہنما سے فون کال لیک، سیاسی بحران
تھائی لینڈ کی وزیراعظم پیٹونگٹرن شیناواترا کی پڑوسی ملک کمبوڈیا کے رہنما کے ساتھ ٹیلی فون کال لیک ہونے پر اتحادی جماعت اور اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور اُن سے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دونوں ممالک کے تازہ ترین سرحدی تنازعے میں کمبوڈیا کے سابق رہنما کے ساتھ بات چیت کی لیک ہونے والی ریکارڈنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے گہرے سیاسی بحرانکے دوران وزیراعظم شیناوترا نے جمعرات کے روز عوام سے معافی مانگی۔
اُن کی ایک بڑی اتحادی جماعت نے وزیراعظم کی پارٹی کی زیر قیادت کمزور حکومت سے باہر نکلنے کے لیے لیک فون کال کو ایشو بنا لیا ہے۔
کمبوڈیا کے لیے نرم گوشہ یا موقف سمجھے جانے پر پیٹونگٹرن شیناوترا کو پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، خاص طور پر دائیں بازو کے قوم پرستوں نے جو ان کے والد سابق وزیراعظم تھاکسن شیناواترا کے دیرینہ حریف ہیں۔
تازہ ترین سرحدی تنازعے میں 28 مئی کو ایک نسبتاً چھوٹے متنازع علاقے میں مسلح تصادم میں ایک کمبوڈین فوجی مارا گیا تھا۔
کمبوڈیا کے سینیٹ کے صدر ہن سین نے بدھ کو ایک مختصر ورژن کے لیک ہونے کے بعد اپنے فیس بک پیج پر مکمل 17 منٹ کی فون کال پوسٹ کی۔
ہن سین کا کہنا تھا کہ انہوں نے گفتگو کو "سرکاری معاملات میں کسی غلط فہمی یا غلط بیانی سے بچنے کے لیے ریکارڈ کیا،”
انہوں نے مزید کہا کہ فون کال کی ریکارڈنگ کم از کم 80 لوگوں کے ساتھ شیئر کی۔ ریکارڈنگ میں تھائی وزیراعظم پیٹونگٹرن کو ہن سین کو "انکل” کہتے ہوئے سنا گیا جب انہوں نے مترجمین کے ذریعے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ آیا انہیں جان لیوا تصادم کے بعد عائد سرحدی پابندیوں کو ختم کرنا چاہیے۔
اپوزیشن اور تھائی حکومت میں شیناوترا کی اتحادی جماعت کا ردعمل اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ اس فون کال میں وزیراعظم نے اپنی ہی تھائی فوج کے ایک سرحدی کمانڈر کو مخالف قرار دیا۔
ناقدین کا کہنا تھا کہ تھائی وزیراعظم ہن سین کو بہت زیادہ خوش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور تھائی لینڈ کی پوزیشن کو کمزور ظاہر کر رہی تھیں۔
تھائی وزیراعظم نے کہا کہ وہ کمبوڈین رہنما ہن سین کے ساتھ مزید نجی بات چیت میں نہیں کریں گی کیونکہ وہ اُن پر بھروسہ نہیں کر سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ "اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر پڑنے والے اثرات پر غور کیے بغیر کمبوڈین رہنما کو اپنے ملک میں اپنی مقبولیت کی فکر ہے۔”
تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے کمبوڈیا کے سفیر کو لیک ہونے والی ریکارڈنگ پر ایک احتجاجی خط جمع کرایا، جس میں کہا گیا کہ کمبوڈیا کے اقدامات ناقابل قبول ہیں اور "سفارتی آداب کی خلاف ورزی، اعتماد کی سنگین خلاف ورزی، اور دو ہمسایہ ممالک کے درمیان طرز عمل کو کمزور کرتے ہیں۔”
تھائی وزیراعظم نے دونوں خاندانوں کے قریبی اور دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے والد تھاکسن اور ہن سین ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہیں۔ 2009 میں، ہن سین نے تھاکسن کو کمبوڈیا کی حکومت کا مشیر مقرر کیا، لیکن تھاکسن نے جلد ہی اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
آڈیو کال کے لیک ہونے کے چند گھنٹے بعد وزیراعظم کے حکمران اتحاد میں سب سے بڑی شراکت دار بھومجائیتھائی پارٹی نے کہا کہ وہ حکومت سے الگ ہو جائے گی۔
پارٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ریکارڈنگ نے تھائی لینڈ کی خودمختاری، علاقے، مفادات اور فوج پر اثر ڈالا ہے۔
پارٹی نے وزیراعظم سے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیسے یہ کریں۔
بھومجائیتھائی اور فیو تھائی پارٹی کے درمیان ان اطلاعات پر پہلے ہی تنازع ہو چکا ہے کہ ایک جماعت کو طاقتور وزارت داخلہ سے ہٹا دیا جائے گا۔
سینیٹ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے بھومجائیتھائی کے کئی رہنما بھی زیرتفتیش ہیں جس میں مبینہ طور پر پارٹی کے قریب رہنے والی کئی شخصیات نے سیٹوں کی اکثریت کا دعویٰ کیا تھا۔
بھومجائیتھائی کے جانے سے 10 پارٹیوں کے اتحاد کو 255 سیٹوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا، جو کہ 500 سیٹوں والے ایوان میں سادہ اکثریت سے ذرا زیادہ ہے۔
جمعرات کو پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر نتھافونگ روینگپانیاوت نے وزیراعظم سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ لیک ہونے والی فون کال "آخری تنکا” تھی جس نے ان کی حکومت پر لوگوں کا اعتماد ختم کر دیا۔