شامی مہاجرین کے لیے دنیا تنگ
Reading Time: < 1 minuteشام میں گذشتہ کئی برس سے خانہ جنگی کے متاثرہ شہریوں نے قریبی ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے مگر اب ان ملکوں کے سیاست دان اور معاشرے مزید میزبانی کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔
ترکی کے بعد لبنان میں بھی سیاست دانوں نے شام کے مہاجرین کے حوالے سے معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے کہ اور ان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔
دی اکانومسٹ کے مطابق لبنان میں 15 لاکھ شامی مہاجرین کے خلاف مقامی سیاست دانوں کی مہم خطرناک شکل اختیار کر رہی ہے اور اب پناہ گزینوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
ترکی میں 30 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے 25 لاکھ کی رجسٹریشن بھی ہو چکی ہے تاہم گذشتہ ہفتے انتظامیہ نے استنبول شہر میں غیر قانونی طور پر مقیم شامی شہریوں کو گرفتار کر کے بے دخل کرنا شروع کیا۔
حکام کا مؤقف ہے کہ استنبول میں صرف دس لاکھ مہاجرین کو رجسٹرڈ کیا گیا تھا مگر دیگر شہروں میں رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں نے بھی بڑے شہروں کا رخ کیا ہے جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
شامی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی بعض این جی اوز نے الزام لگایا ہے کہ ترک حکام ایسے مہاجرین کو سرحدی شہروں کی جانب بے دخل کر رہے ہیں جو تاحال جنگ زدہ ہیں اور وہاں شامی افواج اور باغیوں میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔